اچھو

یہ تحریر 991 مرتبہ دیکھی گئی

اس کا اصل نام کیا تھا بہت سوچنے پر بھی یاد نہیں آرہا۔ سب لوگ اسے اچھو کہتے تھے یہی نام یاد ہے۔ وہ میرا ہم عمر تھا ۔ ہماری دوستی کب شروع ہوئی یہ بھی یاد نہیں اتنا یاد ہے کہ ابھی سکول کی مشقت کے دن شروع نہیں ہوئے تھے۔ اس کا گھر ہمارے گھر کے ساتھ ہی تھا۔ جب اس کا دل کرتا ہمارے ہاں چلا آتا اور ہم گھنٹوں کھیلا کرتے ۔
پچاس سال قبل ہمارے شہر ننکانہ صاحب کے لوگوں نے کبھی خواب میں بھی فریج نہیں دیکھا ہوگا۔ گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈے پانی کے حصول کے لئے عام طور پر دو طریقے ہی اپنائے جاتے تھے ۔ ایک مٹکے یا گھڑے میں پانی ڈال کر رکھ دیا جاتا اور وہ عام پانی سے قدرے ٹھنڈا ہو جاتا تھا اور دوسرا طریقہ بازار میں ملنے والی برف کوپانی میں ڈال کر ٹھنڈا کرلیا جاتا۔
غلہ منڈی میں جس جگہ سٹی ہوٹل ہے اس جگہ کے پاس ہی برف کا ایک اڈہ ہوتا تھا جسے روفی شاہ کا برف کا اڈہ کہا جاتا تھا۔ میں اور اچھو وہاں سے اکثر برف لایا کرتے تھے۔
گورو بازار میں جس جگہ ارشد میڈیکل سٹور ، پبلک میڈیکل سٹور اور ڈاکٹر غوری صاحب کا کلینک ہے ان دنوں اس عمارت کی جگہ قیام پاکستان سے قبل کی تعمیر کردہ پرانی طرز تعمیر کی ایک خوبصورت عمارت تھی۔لکڑی سے تعمیر کردہ یہ خوبصورت عمارت دلکش بالکونیوں ، کھڑکیوں پر مشتمل تھی۔ یہ عمارت اتنی خوبصورت تھی کہ یوں کہیئے کہ ہمارے محلے کا جھومر تھا۔یہ عمارت چونکہ بہت پرانی تھی اور خستہ حال ہونا شروع ہو چکی تھی چنانچہ اس کا مالکان ( چوہدری محمد حسین صاحب اور ان کا صاحبزادگان چوہدری مشتاق صاحب ، چوہدری زاہد صاحب اور چوہدری شاہد صاحب ) نے اسے گرا کر نئی تعمیر کا فیصلہ کیا۔
آپ میں سے بہت سے احباب نے ارشد میڈیکل سٹور دیکھا ہوگا۔یہ عمارت کے کونے پر موجود ہے۔ آجکل اس کونے کے سامنے ٹیلیفون والوں کا ایک کھمبا لگا ہوا ہے ۔ جن دنوں یہ عمارت لکڑی والی تھی اس کھمبے والی جگہ پر ٹالی (شیشم ) کا ا یک بہت بڑا درخت تھا ۔ یہ درخت اتنا بڑا تھا کہ اس نے چوک کا کافی رقبہ گھیرے میں لیا ہوا تھا ۔ گو رو بازار ان دنوں مصروف بازار نہیں تھا ۔ کبھی کبھا ر کوئی ٹانگہ وہاں سے گذرتا تھا ۔ لوگوں کی آمد ورفت بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔گرمیوں کے دنوں میں محلے کے بابے اس درخت کے نیچے اپنی چارپائیاں بچھا کر بیٹھے یا لیٹے رہتے تھے۔پرانی عمارت کو گرانے کے عمل میں یہ درخت رکاوٹ بن رہا تھا۔ اسے کاٹنے کے لئے مزدور لگائے گئے ۔انہوں نے اس کے تنے کو چاروں طرف سے کاٹ کاٹ کر ایک باریک سی نوک بنادیا۔ اور اس کی جڑوں میں پانی ڈال دیا تاکہ نرم ہوسکے اور آسانی سے گرایا جاسکے۔
گرمیوں کا موسم تھا اور دوپہر کا وقت تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں قیلولہ کر رہے تھے۔ مزدور بھی کھانا کھانے چلے گئے تھے۔
جس طرح آجکل شوارما ، ریپ یا رول ملتے ہیں اس زمانے میں مائیں بچوں کو روٹی پر سالن لگاکر رول بنادیا کرتی تھیں اور بچے چلتے پھرتے اسے کھاتے رہتے تھے۔ اچھو کی امی نے بھی اسی طرح کا ایک رول بنا کر اچھو کو دے دیا۔ وہ اسے کھاتا کھاتا اس ٹالی کے درخت کے نیچے آکربیٹھ گیا ۔ اس درخت کا تنا چونکہ کافی حد تک کاٹ دیا گیا تھا اس لئے وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اسی طرف گر گیا جہاں اچھو بیٹھا ہوا تھا۔
جب درخت گرا تو ایک زوردار دھماکا ہوا ۔ آواز سن کر لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ۔ سامنے والا منظر کچھ یوں تھا کہ اچھو درخت کے نیچے دبا ہوا تھا اس کے ہاتھ میں روٹی کا رول پکڑا ہوا تھا اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
جب بھی میں شوارما وغیرہ کھاتا ہوں تو اکثر اچھو یاد آجاتا ہے۔

عمر عبدالحئی کی دیگر تحریریں