او ویلا یاد کر

یہ تحریر 692 مرتبہ دیکھی گئی

انارکلی کا نام ذہن میں آتے ہی چشمِ تصور میں فلم مغل اعظم کی مدھوبالا کا چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ مغل اعظم کا یہ قصہ سچ ہے یا صرف کہانی مگر ایک بات ضرور ہے کہ اس نام میں ایک کشش ضرور ہے چاہے وہ کسی بازار کا نام ہی کیوں نہ ہو۔
انارکلی بازار کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تب میری عمر لگ بھگ 10 برس تھی۔ اس وقت اس بازار میں کالونئیل یا ہندو طرزِ تعمیر کی بہت سی دکانیں اپنی اصلی اور مکمل شکل میں موجود تھیں۔ ان دکانوں میں ایک بہت پرانی دکان میرے لئے بہت کشش کا باعث بنی تھی۔ دکان کا فرش سطح سڑک سے کافی اونچائی پر تھا۔دکان کے اندر داخل ہونے کے لئے اینٹوں سے بنا ہوا ایک زینہ تھا۔ زینہ ختم ہونے پر ایک بھاری بھر کم چوبی دروازہ تھا۔ دروازے کے اوپر والی جگہ پر ایک بڑا سا بورڈ تھا جس کے اوپر لکھا ہوا تھا ” بمبئے میوزک کارپوریشن “۔ دکان کے اندر نظر دوڑانے پر پرانی طرز کے لکڑی اور شیشے سے بنے شو کیس اور الماریاں نظر آتی تھیں۔ ان میں چابی سے چلنے والے پرانے گراموفون اور ریکارڈ سجائے ہوئے تھے۔
یہ سارا منظر بڑی تیزی سے گذر گیا تھا ۔ میں گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا اور گاڑی انارکلی بازار میں سے گذر رہی تھی۔اس وقت یہ بازار آجکل کی طرح نہیں تھا کہ اب تو وہاں موٹر سائیکلوں کی پارکنگ کی وجہ سے پیدل گذرنا بھی انتہائی مشکل امر بن چکا ہے۔
برسوں بعد بھی متعدد بار انارکلی بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ہر بار یہ دکان مجھے روک لیا کرتی تھی مگر اندر جانے کی ایک جھجک سی تھی کہ جیب میں کونسے اتنے پیسے ہیں کہ وہاں سے کچھ لے سکوں اگر بالفرض لے بھی لوں تو گھر والوں کی ڈانٹ کیسے برداشت ہوگی۔ کبھی کبھی قدم اٹھتے اور واپس پلٹ آتے۔ اسی ہاں اور ناں میں کئی سال گذر گئے۔
1990 ء کے قریب کا کوئی سال تھا جب میں حصول تعلیم کے سلسلے میں لاہور رہ رہا تھا ۔ ایک دن اپنے دوست سرفراز شیخ کے ساتھ کپڑوں کی خریداری کے لئے انارکلی بازار گیا ۔ بازار میں سے گذرتے بمبئے میوزک کارپوریشن کے سامنے قدم بے اختیار رک گئے۔قدم رکنے کا یہ معمول کئی سالوں سے قائم تھا مگر اب کی بار ایک تبدیلی آگئی کہ میں نے سرفراز کا ہاتھ پکڑا اور یہ کہتے ہوئے کہ آو تمھیں ایک چیز دکھاؤں دکان کا زینہ چڑھنا شروع کردیا ۔ دروازے کی چوکھٹ عبور کرکے جب ہم اندر داخل ہوئے تو خواب کی طرح محسوس ہوتا ایک منظر سامنے تھا۔60 یا 100 واٹ کے بلب دکان کے اندر موجود اندھیرے کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔روشنی اور اندھیرے کے امتزاج میں گھری لکڑی کی الماریاں اور شو کیس ۔ان شو کیسوں کے پیچھے تین لوگ تھے جن میں سے دو کرسیوں پر بیٹھے تھے اورایک ان کے قریب کھڑا باتیں کر رہے تھے۔ ہمیں اندر آتا دیکھ کر کھڑا شخص ہماری طرف متوجہ ہوا اور ہمارے پاس آکر کہنے لگا۔
” جی فرمائیے”
میں نے ایک گراموفون کی طرف اشارہ کیا اور کہا
” کیا یہ چلتا ہے؟ “
اس کا جواب تھا کہ یہ چلتا ہے اور آپ کو چلا کر دکھاتا ہوں۔
اس نے شو کیس میں سے کاغذ کا بنا ایک لفافہ نکالااور اس میں سے ایک ریکارڈ نکال کر کپڑے سے صاف کیا،گراموفون پر رکھا اور چابی بھرنا شروع کردی۔ریکارڈ گھومنے لگ گیا تو اس پر اس نے بہت آہستگی سے سوئی رکھی توموسیقی کی مدھر لہریں ساری دکان میں پھیلنا شروع ہوگئیں۔ جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ جس مغنیہ کی آواز ہے وہ کوئی اور نہیں شمشاد بیگم ہے۔
ان دنوں میں پرانے گانے جمع کرنے کے جنوں میں مبتلا تھا۔ میری میوزک لائبریری میں بہت سے گلوکاروں کے نایاب گیت موجود تھے۔ اب بھی ہیں۔ مگر یہ والا گانا میں پہلی بار سن رہا تھا۔گانے کے بول تھے
” او ویلا یاد کر”
اس جگہ اس وقت دو کام پہلی بار ہو رہے تھے ایک چابی سے چلنے والا گراموفون پہلی بار قریب سے دیکھ رہا تھا ۔حالانکہ بجلی سے چلنے والا ریڈیو گرام ہمارے گھر ہوتا تھا ۔ اسے میں بچپن سے دیکھا اور سناتھا ۔ دوسرا یہ گیت پہلی بار سن رہا تھا۔ان پہلوں نے ایسا سماں باندھا کہ ہم لوگ گم سم کھڑے تھے۔ یہ سحر اس وقت ٹوٹا جب ریکارڈختم ہوا ۔ اس شخص کا شکریہ ادا کیا ۔ ازراہ تجسس مختلف گراموفونز کی قیمتیں معلوم کیں ۔
“کسی دن گراموفون خریدنے آئیں گے “یہ کہتے ہوئے کہ دکان سے باہر آگئے۔
دکان سے باہر آکر ہم کیسٹوں کی ایک قریبی دکان میں گئے اور دکاندار کو شمشاد بیگم کے پنجابی گانوں کے کیسٹ دکھانے کا کہا۔اس نے کچھ کیسٹ ہمارے سامنے رکھ دئیے۔ ایک کیسٹ کے کور پر لسٹ میں او ویلا یاد کر لکھا ہوا تھا۔فوراََ وہ کیسٹ خرید لیا ۔ گھر آکر اسے جب ٹیپ ریکارڈر پر چلایا تو وہ مزا بالکل نہیں آیا جو گرامو فون سے آیا تھا۔ ٹیپ ریکارڈر سے نکلتی آواز کسی طور بھی گراموفون سے مقابلہ نہیں کر پارہی تھی۔
اس کے بعد کافی عرصہ تک انارکلی بازار جانے کا اتفاق نہ ہو سکا ۔ ایک دن کسی کام سے انارکلی بازار جانے کا موقع ملا تو ایک منظر دیکھ کر دل کو بڑی چوٹ سی لگی کہ جہاں بمبئے میوزک کارپوریشن کی دکان تھی وہاں ملبے کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا اور مزدور ملبے کو اٹھانے کا کام کر رہے تھے۔پھر ایک عرصہ بعد وہاں جانا ہوا تو اس جگہ ایک پلازہ نظر آیا۔ پرانی دکان کے سب آثار ختم ہو چکے تھے۔حتیٰ کہ قریبی دکانوں پر کام کرنے والے لوگ بھی اس بات سے ناآشنا ہو چکے تھے کہ کبھی یہاں گراموفون اور ریکارڈ بیچنے کی ایک بہت بڑی دکان ہوا کرتی تھی۔

عمر عبدالحئی کی دیگر تحریریں