جو بیت چکا

یہ تحریر 2449 مرتبہ دیکھی گئی

ملک میں کتابوں کی تقسیم بہت ناقص ہے۔ بعض کتابیں کراچی میں چھپتی ہیں۔ ان کی خبر لاہور میں کسی کسی کو ہوتی ہوگی۔ اسی طرح لاہور سے شائع ہونے والی کتابوں کی خبر کراچی میں شاید کم کم ہی پہنچتی ہے۔ بظاہر اس خرابی کا کوئی مداوا نہیں۔

ابھی ابھی ایک کتاب، غالباً مبین مرزا کی کرم فرمائی سے، کراچی سے موصول ہوئی۔ عنوان ہے ”چشمِ حیراں“ اور مصنفہ ہیں نوشابہ صدیقی، جو ایک علمی اور ادبی خانوادے کی فرد ہیں اور معاشیات کی استاد رہ چکی ہیں۔ افسوس کہ اس سے پہلے ان کی کوئی تحریر میری نظر سے نہیں گزری حالاں کہ وہ دو ناول، خاکوں اور مضامین پر مشتمل ایک کتاب اور بھارت کا سفرنامہ لکھ چکی ہیں۔ انھوں نے اپنے والدِ محترم کی شاعری بھی مرتب کرکے چھپوائی ہے۔

”چشمِ حیراں“ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر کسی مصنف یا مصنفہ کی تمام تحریریں پڑھنے کا موقع نہ ملا ہو تو جو بھی لکھا جائے گا وہ کچھ ادھورا سا ہوگا۔ نوشابہ صدیقی کا پورا کام سامنے ہوتا تو یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا کہ کیا نئی کتاب قدرے بہتر ہے یا انھوں نے اپنے پرانے معیار کو برقرار رکھا ہے۔ ناولوں پر خیر سے بات ہی نہیں ہو سکتی۔

زیرِ تبصرہ کتاب خاکوں اور مضامین پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے ان کی اسی نوع کی ایک کتاب ”سرِشام“ کے نام سے شائع ہو چکی۔ وہ میں نے نہیں دیکھی۔ اس لیے کوئی تقابل ممکن نہیں۔

خاکوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ تو ان حضرات یا خواتین سے متعلق ہے جن سے ان کا ملنا ملانا رہا اور اس لحاظ سے خاکوں میں جو کچھ درج ہے اسے مستند سمجھنا چاہیے۔ ان خاکوں میں جمیل جالبی، انجم اعظمی، ابراہیم جلیس، انور شعور، شفیع عقیل، غلام مصطفےٰ خاں، نجم الحسن رضوی اور طلعت اشارت، بطور شاعر یا ادیب یا نقاد، زیادہ یا کم معروف ہیں۔ غلام مصطفےٰ خاں کا روحانی مرتبہ بہت بلند تھا۔ خاکے سے اس بات کا اندازہ بہ خوبی ہوتا ہے۔

جن کا ادب سے تعلق نہیں ان میں نوشابہ صاحبہ نے اپنی والدہ کے بارے میں بڑی محبت سے لکھا ہے۔ سب سے اچھا خاکہ ”عاشقین سے جمال بھائی تک“ ہے۔ جس کالج سے نوشابہ صاحبہ متعلق تھیں وہاں جمال نے کینٹین سنبھالا ہوا تھا۔ اس جیسا عام آدمی، جسے نمود و نمائش کی کوئی آرزو نہ ہو اور جو ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں اپنی خودداری برقرار رکھے، اکثر اوقات نامور لوگوں کی نسبت انسانیت کے جوہر سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

جوش ملیح آبادی سے صرف ایک ہی مرتبہ ملنا ہوا لیکن اس ملاقات کا احوال خاصا دل چسپ ہے۔ مختار مسعود، سر سلطان آغا خاں اور عصمت چغتائی سے وہ نہیں ملیں۔ ان کے بارے میں جو کچھ قلم بند کیا وہ تاثرات کے ذیل میں آئے گا۔ مضامین میں سر سید کے نام دو خط ہیں، جامعہئ کراچی کا ذکر ہے۔ صغیر افراہیم کے کراچی میں سات دن قیام کی روداد ہے۔

انور شعور کا جو خاکہ ہے اس سے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ پہلے وہ انور افسری تھے، اس کے بعد انور افسر شعور ہوئے اور آخر میں صرف انور شعور رہ گئے۔اچھا ہوا کہ افسر اور افسری کو تج دیا۔

نوشابہ صدیقی کی نثر سادہ ہے۔ بیان میں کہیں کوئی الجھاؤ نہیں۔ کہیں کہیں جذباتیت نمایاں ہو گئی ہے جیسے ”کاش سرحدیں نہ ہوتیں، کاش ملک تقسیم کے المیے سے نہ گزرا ہوتا۔“ کیا تقسیم کو المیہ سمجھا جائے؟

یہ عجیب بات ہے کہ جن کی اولاد پڑھ لکھ جاتی ہے وہ بالعموم، اور بعض اوقات فی الفور، پاکستان میں رہنے کے بجائے دوسرے خوش حال ملکوں میں آباد ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔ خود نوشابہ صاحبہ کے چاروں بچے ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور بقول نوشابہ صاحبہ ”دوسرے ملک میں تیسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں۔“ آخر ہم اپنے ملک کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے؟ اقتدار پر فائز چاہے سیاست داں ہوں یا فوج؟ شاید کسی کی نیت بخیر نہیں۔

چشمِ حیراں از نوشابہ صدیقی

ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی، ص۲۷۲؛ پانچ سو روپے