جادوگر

یہ تحریر 282 مرتبہ دیکھی گئی

وہ دن مجھے آج بھی یا دہے جب راجا جادوگر ٹورنٹو سے سیدھا  لندن پہنچا تھا ۔ایئر پورٹ پر اس کا شان دار استقبال ہوا تھا۔ ہزاروں کا مجمع لگ گیا تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ اسے اس قدر  قریب دیکھا تھا۔ وہ مجمع میں بلند ہوا تھا اور پھر اس نے ہر مذہب کی روایت کے مطابق اپنے چاہنے والوں کو سلام کیا تھا۔ پہلے بدھ مت انداز میں، پھر جین مت کی روایت کے مطابق، پھر زرتشتی طریقے سے، اس کے بعد یہودی اسٹائل میں، پھر عیسائی انداز میں اور سب سے آخر میں  اسلامی طریقے سے اس نے سب کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔

راجا جادوگر کے ساتھ ساتھ  ایک او ربھی لڑکا  چل رہا تھا۔ وہ اس کا سگا اور اکلوتا بھائی  ڈارثی تھا۔ ڈارثی جادوگر نہ تھا بلکہ لندن ہی کی ایک یونیورسٹی میں پیس اینڈ کنفلکٹ اسٹڈیز کا طالب علم تھا۔ برسوں پہلے راجا جادوگر بھی اسی یونیورسٹی کا طالب علم تھا لیکن پھر ایک دن وہ یونی ورسٹی سے غائب ہوگیا تھا۔ لندن پولیس نے اسے بہت تلاش کیا مگر ہر کوشش لاحاصل رہی۔ کوئی سات آٹھ ماہ بعد  وہ شیکسپئیر ویلی کی پہاڑیوں سے باہر آیا۔ اس کے مطابق وہ ایک جادوگر کے پاس رہنے لگا تھا جس سے اس نے جادو گری سیکھی تھی۔جادوگر کے مرنے کے بعد راجا اس کا جانشین بن کر دنیا کے سامنے آگیا تھا۔ لندن پولیس نے اسے سب سے پہلے ماہر نفسیات کو دکھلایا  تھا لیکن اس کا ہر ٹیسٹ کامیاب رہا۔ پھر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ا س کا معائنہ کیا تھا۔ انھوں نے بھی اسے جسمانی اور ذہنی لحاظ سے فٹ قرار دیا تھا۔ پولیس نے اسے یونی ورسٹی ہاسٹل لاکر چھوڑ دیا تھا۔

 یونی ورسٹی میں اس دن لارڈ چپسنگ تشریف لائے تھے۔ انھوں نے جب راجا  کی گمشدگی اور ایک طویل عرصے بعد شیکسپئیر ویلی کے پہاڑوں سے اس کی  برآمدگی کا عجیب و غریب واقعہ سنا تو انھوں نے راجا کو کانفرنس روم میں بلایا  تھا اور اسے چیلنج کیا تھا کہ اگر وہ ان کے سامنے ابھی ابھی  جادوگری دکھا ئے گا تو وہ نہ صرف  اس کی پوری  تعلیمی فیس معاف کرکے ہوم آفس سے اس کا ویزا بڑھانے کا خط لکھیں گے بل کہ  اس سے وعدہ کیا: “میں تمھیں  ایم اے ریسرچ کا طالب علم بنا کر شیکسپئیر ویلی بھیج دوں گا جہاں تم اپنی جادوگری اور ماضی کے دور کاعلمی و تحقیقی انداز میں مطالعہ کرسکو گے۔”

راجا  جادوگر نے اپنے بدن پر صرف  ایک پتلون باقی رہنے دی  اور جادوگری دکھانے کا آغاز کیا ۔ اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا تھا تاکہ لارڈ چپسنگ کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس نے اپنی شرٹ اور کوٹ میں کچھ چھپا کر نہیں رکھا ہے۔ اولاً اس نے چھوٹے موٹے کرتب دکھائے۔ جیسے لارڈ صاحب کے سامنے کرسی پر بیٹھ جانا،  پھر نیچےجھک کرغائب ہوجانا، اور پھر کانفرنس ہال کےمرکزی دروازے سے نمودار ہونا۔ ایک کرتب یہ بھی تھا کہ اس نے لارڈ چپسنگ کے بریف کیس سے تین کبوتر برآمد کیے  ، حالاں کہ لارڈ صاحب کے حکم پر گزشتہ ہفتے ہی کوئی پندرہ ہزار  کبوتر، کوے  اور  مینا کو یونیورسٹی  کی حدود سے پکڑ کر باہر نکالا گیا تھا۔ ایک عجیب و غریب کرتب اس نے یہ دکھایا کہ لارڈ صاحب نے صبح جو ناشتہ کیا تھا،  اس کا نام کاغذ پر لکھ کر انھیں دکھایا تھا۔

“سنو راجا جادوگر! تم یہ سب کیسے کررہے ہو؟” لارڈ صاحب نے اس سے دریافت کیا ۔

“لارڈ صاحب1 صرف آپ کا ذہن پڑھ رہا ہوں۔ آپ بار بار دروازے کی جانب دیکھ رہے تھے، میں نے اپنے جسم کو شعاعوں میں بدل کر دروازے تک پہنچا دیا اور وہاں سے خو دکو نمودار کیا۔آپ کو کبوتر سخت ناپسند ہیں، میں نے آپ کے ذہن سے کبوتر کی شعاعیں لیں اور آپ کے بریف سے تین کبوتر نکال لیے۔ پھر میں نے آپ کا ذہن پڑھا کہ آپ کو آج صبح کا ناشتہ پسند نہیں آیا  ۔ ناشتے کی تمام چیزوں کے نام آپ کے ذہن سے شعاعوں کی مدد سے حاصل کیے اور کاغذ پر ان کے نام لکھ دیے۔”راجا جادوگر نے کہا۔

 “بہت خوب  ! مجھے تمہاری گفتگو کا ایک بھی لفظ سمجھ نہیں آیا۔ لیکن یقین جانو ! میں نے اگر یہ سب کرتب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے ہوتے تو میں کبھی یقین نہ کرتا۔ “لارڈ چپسنگ سے کہا۔”تم کہاں کے رہنے والے ہو؟” انھوں نے راجا جادوگر سے سوال کیا۔

“ٹورنٹو شہر کا۔ لیکن لارڈ صاحب! اگر آپ نہ ہوتے اور آپ کے ذہن سے شعاعیں نہ نکلتیں تو میں جادو نہیں دکھا سکتا تھا۔ میں یہ نہیں جانتا کہ آپ نے رات میں کیا کھایا تھا ۔ البتہ میں  یہ بتا سکتا ہوں کہ آپ اپنی گاڑی کے عقبی ٹاِئروں سے خاصے پریشان ہیں جو آپ کو اپنی قیمتی گاڑی میں ٹاٹ کا پیوند معلوم ہوتے ہیں اور آپ ان کے رم پر گولڈ پلیٹنگ کروانا چاہتے ہیں۔ اس لیے کیوں کہ آپ کے ذہن سے ا س کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ یہ دیکھیے  ۔۔۔آپ ایسی گولڈ پلیٹنگ کروانا چاہتے ہیں نا!!!” راجا جادوگر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔

لارڈ صاحب  اس کی ہتھیلی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ راجا جادوگر کی ہتھیلی سونے کی مانند چمک رہی تھی۔

“واہ! واہ! بہت خوب!” لارڈ صاحب اپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے راجا جادوگر کو اپنے ساتھ لیا اور اپنے محل چلے آئے۔

ان کا محل یونی ورسٹی سے کوئی دو سوا دو گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا۔ قدیم لیکن بے حد خوب صورت  محل۔

“آج سے تم یہیں رہو گے۔ میرے پاس۔”لارڈ صاحب نے محل پہنچ کر کہا۔

“لارڈ صاحب! میں آپ کا ذہن پڑھ سکتا ہوں۔ لیکن میں ہرگز لالچی انسان  نہیں ہوں۔ ویسے بھی میرے استاد جادوگر نے جو جادو مجھے سکھایا ہے، وہ  میرے دل میں لالچ آتے ہی ختم ہوجائے گا۔پھر نہ آپ کو کچھ مال ملے گا اور نہ   ہی میرا جادو باقی رہے گا۔ “راجا جادوگر بولا۔

“ارے نہیں میرے بچے۔۔۔میرا مقصد تمہارے جادو سے ہرگز اپنی دولت میں  اضافہ  کرنا نہیں ہے۔ تم شوز کرو گے اور جتنی بھی آمدن ہوگی ، سب کی سب ایشیا، افریقا، امریکا اور یورپ کے نادار بچوں کی تعلیم اور صحت پر خرچ ہوگی۔ یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔ ” لارڈ صاحب نے کہا۔

راجا جادوگر کو ان کی باتوں میں سو فیصد خلوص نظر آیا۔ وہ مان گیا۔ ویسے بھی اس کا دل اب یونیورسٹی کی تعلیم سے زیادہ لوگوں میں گھلنے ملنے کو چاہنے لگا تھا۔ لارڈ صاحب نے اسی وقت اپنے وکیل کو بلایا اور ایک معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کی رو سے راجا کو ایک ماہ میں جادو کے صرف دو  شوز  کرنے تھے۔یہ شو دنیا کے کسی بھی مقام پر منعقد کرائے جاسکتے تھے۔ راجا مطمئن تھا ۔ اس نے معاہدہ کرلیا اور کوئی بحث کیے بغیر لارڈ صاحب کی تجویز کردہ تنخواہ اور مراعات  بھی قبول کرلیں۔

اسی روز  راجا جادوگر نے اپنے والدین کو فون ملایا اور ان سے بات کی۔ وہ سخت پریشان تھے۔ خاص کر اس کا چھوٹا بھائی  ڈارثی تو تین ماہ قبل  تورنٹو سے لندن پہنچ کر اسے  تلاش کررہا تھا۔ اس نے اپنے والدین کو ساری بات بتائی۔

“ابو! آپ کو یاد ہے وہ جادوگر جو بچپن میں میرے خواب میں آتا تھا۔۔۔۔ہاں وہی۔۔۔۔وہ مجھے شیکسپئیر ویلی میں نظر آیا تھا۔ ہم برمنگھم جارہے تھے۔۔۔جی ابو۔۔۔۔یونی ورسٹی کی بس جب  سروسز پر رکی تھی، تب میں نے اسے دیکھا تھا۔ وہ مجھے ہی بلا رہا تھا۔ بس میں اس کے اشارے پر چل پڑا۔۔۔جی ابو۔۔۔میں بالکل خیریت سے ہوں۔۔۔۔ہیلو ۔۔۔جی امی۔۔۔کیسی ہیں آپ؟   جی میں بالکل خیریت سے ہوں۔ اچھا میرا پتا نوٹ کرلیں۔۔۔ ڈارثی کو دے دیجیے گا۔ یہ محل  کینل ورتھ  کے علاقے میں ہے۔۔۔جی امی محل ہے۔۔۔ہاں امی بالکل بادشاہوں جیسا محل۔۔۔۔”وہ اپنی ماں کو لارڈ چپسنگ کے محل کی تفصیل بتانے لگا۔

ڈارثی اگلے ہی روز محل پہنچ گیا۔ دونوں بھائی گلے ملے۔ خوب باتیں ہوئیں۔  لارڈ چپسنگ سے ناشتے کی میز پر ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بھی ڈارثی کو خوش آمدید کہا۔ ڈارثی تین دن محل میں رہا ۔ پھر ٹورنٹو چلا گیا۔

اگلے چھ ماہ راجا جادوگر نے پورے لندن میں کامیاب شوز کیے۔ خوب کمائی ہوئی۔ معاہدے کے مطابق ساری آمدن نادار بچوں کی تعلیم اور صحت پر خرچ ہوئی۔

اگلے دو سال میں راجا نے دنیا کی خوب سیر کی۔  پھر لندن واپس آیا   اور وہاں سے کینل ورتھ کے محل میں چلا گیا۔ اگلے سال اس نے ڈارثی کو بھی ٹورنٹو سے  اپنے پاس بلاکر اس کی من پسند یونی ورسٹی میں داخلے کی تیاری کروائی اور بالآخر اسے ماسٹر اِن  پیس اینڈ کنفلکٹ اسٹڈیز میں داخلہ دلا دیا۔

اچانک افریقا میں جنگ شروع ہوگئی۔ لارڈ صاحب نے راجا جادوگر کو بلایا اور کہا:”وہاں بچوں کے اسکول بند ہوگئے ہیں۔ صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ بہت زیادہ رقم چاہیے۔ “

“لارڈ صاحب! ایک بین الاقوامی سطح کا مقابلہ کرائیے۔ دنیا بھر کے جادوگروں کا ٹیلنٹ سامنے لائیے۔ یہ مقابلہ ہر سال  منعقد ہوگا۔۔۔۔ جادوگری کا مقابلہ۔ ۔۔ اس مقابلے سے خوب آمدن ہوگی۔ اتنی زیادہ کہ ورلڈ کپ اور اولمپکس  منعقد کرانے والے ملکوں کو بھی اتنی آمدن نہیں ہوتی۔ ” راجا جادوگر نے تجویز دی۔ تجویز بہت معقول تھی۔

 لارڈ صاحب نے اسی سال  شو منعقد کرایا۔ توقع سے زیادہ آمدن ہوئی۔ اتنی زیادہ کہ اس رقم کو سنبھالنے کے لیےصر ف کینل ورتھ کے قلعے کی حدود  میں ہر بینک نے اپنی تین چار برانچیں کھول لیں۔ پہلا عالمی مقابلہ راجا جادوگر نے ہی جیتا تھا۔

 اس کے بعد راجا جادوگر  نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والدین کو ٹورنٹو میں ایک محل بناکر دے گا۔ راجا  اپنے والدین کی سگی اولاد نہ تھا۔ وہ اور ڈارثی دونوں یتیم بچے تھے ۔ ان کے حقیقی والدین تو ان کے بچپن میں ہی انتقال کرگئے تھے۔ مسز اسٹائلز او ران کے شوہر مسٹر روڈنی نے دونوں بچوں کو انتہائی غربت میں پالا تھا۔ راجا جادوگر نے بچپن میں مسز اسٹائلز سے کہا تھا:”ماں ! میں ایک دن ایک محل بناؤں گا جہاں سارے یتیم بچے رہیں گے۔  “

اب وہ وقت آگیا تھا۔ اس نے ایک بڑی رقم ٹورنٹو کے بینک میں ٹرانسفر کی اور ماہر تعمیرات نے محل بنانا شروع کردیا۔ اس نے ساری رقم ایڈوانس میں دی تھی تاکہ محل جلد بنے اور سارے یتیم بچے وہاں جلد رہنے لگیں۔اگلے سال محل تیار ہوا  تو وہ اس کا افتتاح کرنے ٹورنٹو گیا۔ واپسی پر اسے ایک شو  میں شرکت کرنے جانا تھا لیکن اسے لارڈ چپسنگ کے حادثے کی خبر ملی۔ ان کی حالت اب خطرے سے باہر تھی لیکن ان کی گاڑی بالکل تباہ ہوگئی تھی۔راجا جادوگر  نے شو میں شرکت کا ارادہ تبدیل کیا اور وہ ٹورنٹو سے سیدھا لند  ن پہنچا تھا۔

اسی روز میں نے راجا جادوگر کو پہلی مرتبہ اس قدر  قریب دیکھا تھا۔ وہ مجمع میں بلند ہوا تھا اور پھر اس نے ہر مذہب کی روایت کے مطابق اپنے چاہنے والوں کو سلام کیا تھا۔  ڈارثی بھی اس کے ساتھ ساتھ چل رہا  تھا۔

“ٹھائیں ۔۔۔ٹھائیں۔۔۔” دو گولیاں چلیں اور راجا جادوگر جو ہوا میں بلند تھا، زمین پر  گر پڑا۔

ڈارثی اس سے چند گز کے فاصلے پر زمین پر گرا تھا۔ اس کی موت واقع ہوچکی تھی۔ راجا نے اسے ہلایا جلایا مگر اس کی آنکھیں بے نو رتھیں۔

بھگڈر کے باعث پولیس کو ڈارثی کی لاش تک پہنچنے میں کوئی چالیس منٹ لگ گئے۔ ایمبولینس بھی آگئی تھی۔ لاش کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ڈارثی کی موت کی تصدیق کردی۔

“میں ڈارثی کی لاش کو شیکسپئیر ویلی لے کر جاؤں گا۔ دو دن بعد میں  وہاں اسے زندہ کروں گا۔ ” راجا نے اس روز ٹیلی وژن پر اعلان کیا تھا۔

“مسٹر راجا جادوگر! کیا آپ مرے ہوئے شخص کو زندہ کرلیں گے؟ کیا آپ یہ علم جانتے ہیں؟” ایک صحافی نے اس سے پوچھا۔

“جانتا تو نہیں ہوں۔ لیکن مجھے اپنے اوپر اعتماد ہے۔ ” راجا جادوگر نے کہا۔ “اگر میں اپنے بھائی کو واپس نہ لاسکا توپھر میرا جادو کس کام کا؟”

اس خبر کو انٹرنیشنل میڈیا نے بھی کیچ کرلیا۔

ادھر پولیس نے ڈارثی کے قاتل کو گرفتا ر کرلیا تھا۔ ا س نام جرسی تھا۔ جرسی نے پولیس کو یہ بیان دیا تھا کہ اس کی بہن  ڈارثی کی گرل  فرینڈ تھی اور ڈارثی نے اسے اپنے چکر میں پھنسا لیا تھا ۔ جرسی کی بہن گھر کی واحد کفیل تھی جس  نے ڈارثی کے کہنے پرگھر سے منہ موڑ لیا تھا۔ اب گھر چلانا مشکل ہوگیا تھا کیوں کہ آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بند ہوگیا تھا۔جرسی نے اپنی بہن کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن اس کی بہن نہ مانی۔    مجبوراً اس نے ڈارثی کو قتل کردیا تھا۔ لیکن پھر پولیس اسٹیشن میں دو  وردی والے ننجا ٹرٹلز کہیں سے آگئے تھے جنھوں نے اپنے خاص طریقے سے جرسی سے تفتیش  کی تھی اور جرسی کی خوب چیخیں بھی نکلی تھیں۔ کوئی سات آٹھ منٹ بعد ہی  بعد ہی  جرسی نے یہ  قبول کرلیا تھا کہ وہ اور اس کے دوست مل کر  فحاشی کے متعدد اڈے چلاتے تھے اوراس کی بہن یعنی  ڈارثی کی بیوی نے ان مکروہ خفیہ  اڈوں کے خلاف ملکہ کو چند ماہ قبل  ایک رپورٹ بھیجی تھی جو ان کے ماسٹر کے ایک پراجیکٹ کا  حصہ تھی ۔ ملکہ کے محل میں یہ رپورٹ لارڈ چپسنگ خود لے کر گئے تھے  جس پر ملکہ نے فوری ایکشن لے کر ان اڈوں کو پولیس چیف کی مدد سے بند کروایا تھا اور سیکڑوں  طلبا و طالبات کو اس مکروہ  دھندے سے نکالا تھا ۔اسی لیے جرسی نے  ڈارثی کو مار ڈالا تھا اور وہ توڈارثی  کی بیوی یعنی اپنی بہن کو بھی قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اسے پولیس نے دھر لیا تھا۔

ادھر عالمی سطح پر یہ  خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی تھی کہ جادوگری کا عالمی مقابلہ جیتنے والا راجا جادوگر اپنے بھائی  ڈارثی کی لاش کو زندہ کرکے اپنے فن کا مظاہرہ کرے گا۔

“یہ مظاہرہ کہاں ہوگا؟”  ایک صحافی نے راجا سے پوچھا تھا۔

“شیکسپئیر ویلی میں۔”راجا جادوگر نے اعلان کیا۔

مسز اسٹائلز اور مسٹر روڈنی بھی اپنے  دل کے ٹکڑے راجا جادوگر کے پاس پہنچ گئے تھے۔ ڈارثی کی اچانک  موت نے ان دونوں کو سخت صدمہ پہنچایا تھا۔

“بیٹا! تم خدا نہیں ہو۔ تم ڈارثی کو زندہ نہیں کرسکتے۔ ” مسز اسٹائلز نے راجا جادوگر سےکہا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ راجا خود بھی  شدید صدمے سے دوچار  ہے اور اسی لیے وہ ڈارثی کی لاش کو زندہ کرنے کی بات کررہا ہے۔

“ایسا نہ ہو کہ ڈارثی زندہ ہو کر  فرینکسٹائن کا عفریت بن جائے۔”مسٹر روڈنی نے خوفزدہ ہوکرسوچا تھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ انھوں نے کچھ ہی دن قبل احمد سعداوی کے مشہور عربی  ناول   “فرینکشتاین فی بغداد “کا جوناتھن رائٹ کا  انگریزی ترجمہ پڑھا تھا۔

“ماں۔ مجھے کوشش تو کرلینے دو۔میں اب اپنے  جادو کی انتہا دیکھنا چاہتا ہوں۔” راجا جادوگر نے کہا۔    

اسی روز شیکسپئیر ویلی میں ہوٹل ، مکانات، پارک، سڑکیں، ہر ایک مقام ایڈوانس بک ہوگیاتھا۔ لاکھوں کی تعداد میں راجا جادوگر کے مداح اور میڈیا کے نمائندے  وہاں  پہنچ گئے۔ تجسس کا یہ عالم تھا کہ وہاں کے حکومتی گیسٹ ہاو ٔس میں ملکہ کے لیے ایک کمرہ بھی بک ہوگیا تھا جو  راجا جادوگر کی ایک مداح تھیں۔ اب سب کو راجا  جادوگر کی آمد کا انتظار تھا جسے شیکسپئیر ویلی پہنچ کر ڈارثی کی لاش کو لے کر پہاڑیوں میں دو دن روپوش ہوجانا تھا اور پھر دو روز بعد ہنستے مسکراتے ڈارثی کو  زندہ واپس لے کر پہاڑیوں سے نیچے اترآنا تھا۔

ایک ہی دن میں شیکسپیئر ویلی کی پہاڑیوں کی ہر غا رمیں کیمرے لگ چکے تھے جنھیں انتہائی طاقتور بیٹریاں سپورٹ کررہی تھیں ۔ ہر کیمرہ  آن لائن تھا اور پوری دنیا میں راجا جادوگر کا یہ دو روزہ کرتب دیکھا جانے والا تھا۔

جادوگرکی ایک ایک حرکت کیمرے میں ریکارڈ ہونے والی تھی۔  

(بقیہ افسانہ دوسرے حصےمیں ملاحظہ فرمائیں)