کینسر کا ایک منفرد علاج: ایکس فیکٹر (X-Factor)

یہ تحریر 369 مرتبہ دیکھی گئی

سارہ رو رہی تھی۔ سارے طلبہ اس کے اردگرد موجود تھے اور چپ کھڑے تھے۔ 

سارہ کو صرف ایک غم تھا، البتہ اس کے اردگرد موجود طلبہ کو دو غم تھے۔ 

سارہ کا غم یہ تھا کہ اس کی امی کو کینسر کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ اس کی امی نے یہ بات اسے آج اسکول  میں آدھی چھٹی کے وقت آکر بتائی تھی۔ وہ اپنی رپورٹس لے کر سیدھا سارہ کے اسکول آئی تھیں اور اسکول انتظامیہ سے سارہ اور اس کے چھوٹے بھائی کی ایک سال کی فوری رخصت کی بات کی تھی کیوں کہ کینسر کا مرض سامنے آنے کے بعد  وہ سارہ اور اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر علاج کی غرض سے فوری طور پر بیرون ملک جارہی تھیں۔ 

سارہ کو یہ تو معلوم تھا کہ امی اسکول آئی ہیں۔ لیکن کس لیے؟ یہ اسے معلوم نہیں تھا۔

جب سارہ اور اس کے چھوٹے بھائی کی رخصت منظور ہوگئی ، تب امی نے سارہ کو اسکول کے ویٹنگ روم میں بلاکر ساری بات بتائی تھی۔ سارہ رونے لگی۔ امی نے اسے چپ رہنے کو کہا اور حوصلہ بڑھانے والی چند باتیں کیں۔ پھر اس کی امی ٹکٹ اور کچھ سامان کی خریداری کے لیے اسکول سے چلی گئی تھیں۔ سارہ کو اب چھٹی کے وقت گھر پہنچنا تھا اور اس وقت آدھی چھٹی کا وقت تھا۔ یہ وقت گزارنا اس کے لیے نہایت مشکل تھا۔ 

سارہ اپنا غم لیے رو رہی تھی اور اس کے دوست اور سہیلیاں سوچ رہی تھیں کہ سارہ کی امی کو تو کینسر ہوگیا ہے، لیکن اسکول کی ہر دل عزیز طالبہ سارہ بھی انھیں چھوڑ کر بیرون ملک جارہی تھی۔ 

سارہ اور اس کا چھوٹا بھائی اسی شام اپنی امی کے ہمراہ بیرونِ ملک پرواز کر گئے تھے۔ بیرونِ ملک ان کی امی کا علاج ہوا جب کہ دونوں کم عمر بھائی بہن نے گھر اور اپنی والدہ کو سنبھالا۔ لانڈری، کلیننگ، امی کو ہسپتال لے جانا، امی کی دوا کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔الغرض دونوں معصوم بچوں نے اپنی امی کا بیرون ملک خوب خیال رکھا۔ ان کے ابو دنیا گھومتے رہتے تھے۔ ان کے پاس اپنی اس بیوی اور بچوں کے لیے بہت سا پیسہ تو تھا، لیکن وقت نہ تھا۔

ایک سال بعد سارہ کی امی صحت یاب ہوکر وطن لوٹ آئیں۔

ڈاکٹروں کے پینل کی مفصل رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال میں سارہ کی امی کی صحت یابی کی اصل وجہ ان کا ہسپتال کا علاج نہ تھا، بلکہ ایک ایکس فیکٹر(X-Factor) تھا، یعنی کوئی ایسی وجہ جس کا میڈیکل سائنس میں کوئی نام نہیں۔ میں تب سے ہی اس ایکس فیکٹر کی کھوج میں لگ گیا۔

اگلے سال میں نے دو کم عمر بہن بھائیوں شانزے اور علی کا پتا چلایا جس میں علی کو کینسر ہوگیا تھا لیکن وہ بھی  ایک سال بعد صحت یاب ہوگیا تھا۔ اس مرتبہ بھی ڈاکٹروں کے پینل نے علی کے کینسر کے علاج میں کسی ایکس فیکٹر کی جانب توجہ دلائی تھی کہ علی کی صحت یابی کی اصل وجہ ایک ایکس فیکٹر ہے۔ 

“پھر وہی ایکس فیکٹر” ، میں نے دل میں سوچا اور اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کردیا۔

پھر ایک دن میں نے وہ ایکس فیکٹر تلاش کرہی لیا۔ کیسے؟ آپ بھی پڑھیے۔

 یہ اس وقت کی بات ہے جب مجھے ایک افسوس ناک واقعے کا علم ہوا کہ مقامی کالج کی “نادیہ” نامی ایک نوجوان طالبہ کارایکسیڈنٹ میں انتقال کرگئی تھی اور اس کے والد کو اپنی بیٹی کی  اچانک موت کے غم میں کینسر اور سکتہ  ہوگیا تھا۔ ان کی بیوی پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوچکی تھیں۔ کوئی مزید اولاد نہ تھی۔ بس ایک بیٹی تھی جو کالج میں پڑھتی تھی اور ان کی آنکھوں کا تارا تھی۔ اب وہ بھی زندہ نہ رہی۔ باپ زندہ لاش بن گیا اور کینسر کا مریض بن کر بستر پر پڑ گیا۔ میں نے نادیہ کے والد کو ایسی حالت میں دیکھا تھا کہ وہ کینسر کے مریض تھے اور کھلی آنکھوں سے ہسپتال کے کمرے کی چھت کو بس گھورتے ہی  رہتے تھے۔نہ بول سکتے تھے او رنہ ہی  ہاتھ پاؤں ہلا سکتے تھے، البتہ  آوازیں سن سکتے تھے۔

میں نے اس مرحوم طالبہ  نادیہ  کے کوائف اکٹھا کیےتو مجھے کچھ اہم باتوں کا علم ہوا۔

کینسر اور سکتے کےمریض  نادیہ کے  والد،اپنی مرحوم بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ نادیہ  کو پیانو بجانے کا شوق تھا۔ یہ شوق اسے اس کی والدہ کی جانب سے ورثے میں ملا تھا۔  وہ ہر شام کو اپنے والد کے لیے پیانو بجاتی تھی اور پھر دونوں باپ بیٹی آمنے سامنے بیٹھ کر چائے پیتے تھے اور خوب باتیں کرتے تھے۔نادیہ اپنی ماں کے بڑے سے پیانو پر بہت خوب صور ت دھن بجاتی تھی۔۔۔ کانوں میں رس گھولنے والی دھن۔

جب نادیہ کا ایکسیڈنٹ سے انتقال ہوا تھا، اس وقت  وہ اپنی مرحوم ماں کے پیانو پر معروف پیانو بجانے والےیونانی نژاد  فن کار”یانی”(Yanni) کی ایک دھن بجانا سیکھ رہی تھی۔ اس دھن  کا نام Reflections of Passionتھا۔ یہ دھن اسی پیانو پر اس کی  والدہ بجاتی تھیں۔ 

یہ اہم معلومات ملنے کے بعد میں نے ہسپتال انتظامیہ سے رابطہ کیا  جہاں نادیہ کے والد زیر علاج تھے۔ میں نے ہسپتال انتظامیہ سے  درخواست کی  کہ  میں کینسر کے علاج کی ایک منفرد  وجہ “ایکس فیکٹر” تک پہنچنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے مجھے مریض کے لیے  ایک پرائیویٹ کمرہ، کمرے میں نادیہ کی والدہ کا پیانو اور  ایک ایسی خاتون ڈاکٹر کا تعاون  چاہیے جو قد کاٹھ میں  نادیہ جیسی ہو۔

ہسپتال والوں نے سب سے پہلے  ڈاکٹر خولہ سے میری ملاقات کرائی جو قد کاٹھ میں نادیہ جیسی لگتی تھیں اور رضاکارانہ طور پر میری تحقیق کا حصہ بننا چاہتی تھیں۔ وہ ماضی میں نادیہ کے کالج کی استانی بھی رہ چکی تھیں اور انھیں نادیہ کے والد کی حالت دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا تھا۔  میں نے انھیں اپنےتحقیقی  منصوبے سے آگاہ کیا۔ وہ فوراً راضی ہوگئیں۔ 

اگلے تین ماہ ڈاکٹر خولہ نے بڑی محنت سے ایک مقامی میوزیکل انسٹی ٹیوٹ میں  یانی (Yanni) کی  دھن “ریفلیکشنزاوف پیشن” (Reflections of Passion)پیانو پر بجانا سیکھی۔ جب وہ اس میں  ماہر ہوگئیں اور ان کی انگلیاں نادی کی والدہ کے یاماہا برانڈ  کے پیانو پر رواں ہوگئیں تو اب ایکس فیکٹر معلوم کرنے کامیرا  اصل منصوبہ شروع ہوا۔

ہسپتال والوں نے چند مخیر افراد کے مالی تعاون سے ایک  ساؤنڈ پروف پرائیویٹ روم میں نادیہ کے والد کو منتقل کردیا  اور اس میں نادیہ کی والدہ کا پیانو بھی رکھوا دیا۔مریض کے کمرے میں ڈاکٹر خولہ کو اس طرح بٹھایا گیا تھا کہ مریض کی طرف ڈاکٹر کا چہرہ نہ ہو۔ پھر ڈاکٹر خولہ نے دھن بجانی شروع کی۔ آہستہ آہستہ۔۔۔۔یانی کی دھن۔۔۔۔  “ریفلیکشنزاوف پیشن” (Reflections of Passion)۔  بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے نادیہ اب  ڈاکٹر بن چکی ہو اور سفید لیب کوٹ پہنے اپنی ماں کی طرح پیانو پر دھن بجا رہی ہو۔ ڈاکٹر خولہ  سات دن تک روزانہ دو تین مرتبہ مریض کے کمرے میں جاکر وہ دھن بجاتیں۔

آٹھویں روز ڈاکٹر خولہ کو دھن بجاتے ہوئے محسوس ہوا کہ کوئی ان کے پیچھے کھڑا ہے۔ میں کیمرے میں سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ میں نے ڈاکٹر خولہ کو ان کے ایک کان پر لگی ڈیوائس پر اطلاع دی:

” مریض سکتے سے باہر آچکا ہے اور آپ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پیانو پر میوزک بجانا جاری رکھیے۔”

تھوڑی دیر بعد کمرے میں مریض کی آواز گونجی:

“نادیہ۔۔۔۔۔میری بچی۔”

لیکن کمرے میں نادیہ نہ تھی، بلکہ ڈاکٹر خولہ تھیں۔ انھوں نے مڑ کر مریض کو دیکھا۔ مریض کو فوراً معلوم  ہوگیا کہ پیانو بجانے والی لڑکی ان کی بیٹی نادیہ نہیں ہے۔ نادیہ تو مرچکی ہے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ 

اگلے روز نادیہ کے والد اپنے گھر منتقل ہوگئے۔ ڈاکٹر خولہ کو انھوں نے اپنی منہ بولی بیٹی بنا لیا تھا۔ ڈاکٹر خولہ کے روپ میں انھیں اپنی مرحوم بیٹی نادیہ مل گئی تھی۔ ڈاکٹر خولہ صبح ہسپتال جاتیں اور شام میں نادیہ  کے گھر جاکر  نادیہ کی طرح اس کے والد کے سامنے پیانو بجاتیں۔ پھر دونوں چائے پیتے، بسکٹ کھاتے اور خوب باتیں کرتے۔ اگلے دن یہی عمل دہرایا جاتا۔ہسپتال کا علاج بھی جاری تھا۔ 

ایک سال بعد نادیہ کے والد کی رپورٹ میں کینسر کا نام نشان تک نہ تھا۔ ڈاکٹروں کے پینل کےمطابق کینسر ختم ہونے کی وجہ وہی تھی۔ ایکس فیکٹر۔ لیکن اس مرتبہ ایکس فیکٹر مجھے معلوم ہوگیا تھا۔ 

ایکس فیکٹرکا مطلب  ہے:  اپنوں سے محبت کرنا ، اپنوں کو محبت کی نظروں سے دیکھنا اور اپنوں  کی خوشی کی خاطر خود میں جینے کا حوصلہ اور جینے کی امنگ پیدا کرنا۔ 

سارہ کی والدہ کی صحت یابی کے پیچھے جو ایکس فیکٹر تھا، وہ ان کی اپنے معصوم  بچوں سے بے پناہ محبت تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا: “اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرنے کے جذبے نے  ہی مجھے کینسر سے چھٹکارا دلایا اور اس دنیا میں واپس لایا۔ میں نے سوچا تھا کہ مجھے اپنے معصوم بچوں کے لیے جینا ہوگا۔ لیجیے! میں کینسر کو شکست دے کر آج آپ کے سامنے زندہ ہوں۔”

علی نے مجھے بتایا:

 “میں اور شانزے بچپن سے آپس میں خوب لڑتے تھے۔ جب مجھے اتنی کم  عمری میں کینسر ہوا تو میں بہت گھبرایا ۔لیکن پھر میں نے بہادری کامظاہرہ کیا تھا اور مرنے کے لیے خود کو تیار کرنے لگا تھا۔ اس وقت شانزے نے مجھ سے روتے ہوئے کہا تھا کہ علی! اگر تمھیں کچھ ہوگیا تو میں کس سے روزانہ لڑائی کروں گی؟ کس کو تنگ کروں گی؟ میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ مجھے اپنی اکلوتی چھوٹی بہن کی خاطر زندہ رہنا ہے۔ دیکھیے سر! میں کینسر کو پچھاڑ کر آج آپ کے سامنے زندہ سلامت موجود ہوں۔ میری بہن سے میری محبت ہی وہ ایکس فیکٹر ہے جس کے باعث میں نے کینسر جیسے موذی مرض کو شکست دی تھی۔ “

میرے عزیز قارئین!میں نے تو یہ  جانا ہے کہ  کینسر، موت کا دوسرا نام ہرگز نہیں ہے۔ اگر کسی کو کینسر لاحق ہے تو وہ فوراً خود ہی اپناایکس فیکٹر تلاش کرے، یا پھر آپ اس کے لیے اس کا ایکس فیکٹر تلاش کریں اورملنے پر اسے بتائیں۔۔۔مثلاً  کوئی ایسا شخص۔۔۔کوئی ایسا اپنا۔۔۔ کہ جس کی محبت میں اتنی طاقت ہو کہ وہ کینسر کےاس  مریض کو ایک خوش گوار  زندگی میں  واپس لے آئے اور اس کا کینسر جڑ سے اکھاڑ دے۔ ہر انسان کا ، خواہ وہ سارہ کی والدہ ہوں، علی ہو یا نادیہ کے ابو ہوں، ہر شخص کا کوئی نہ کوئی ایکس فیکٹر ضرور ہوتا ہے۔ ماں، باپ، بیوی ،بچے، بھائی، بہن ، یاپھر  کوئی اور جو اس کا  اپنا ہو اور اسے نہایت ہر دل عزیز ہو۔  آپ کا ایکس فیکٹر(X-Factor)  کون ہے؟