ایم اے فیل ۔۔۔ افسانہ

یہ تحریر 358 مرتبہ دیکھی گئی

آج  فلیٹ کافی صاف ستھرا لگ رہا  تھا، ورنہ روز انہ ایسی صفائی نظر نہ آتی تھی۔

مسز آہو بانگ کچن میں تھیں اور مسٹر بانگ چھوٹے سے ڈرائنگ روم پر صوفے پر بیٹھے اور لیٹے ہونے کی درمیانی حالت میں تھے۔

“آج فائنل سمسٹر کا آخری پرچہ بھی ہوگیا۔ اب میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے آزاد ہوں۔”بانگ نے کہا۔

“کون سے مقاصد؟” آہو کچن سے بولی۔” مقصد تو یہی تھا کہ اس شہر سے سند لے کر اپنے ملک لوٹ چلیں اور اگلی ہدایات کا انتظار کریں۔”

“ہاں! مگر  ان چار سالوں میں کچھ نئے مقاصد بھی شامل ہوگئے ہیں۔  بانگ بولا۔

“مثلاً کون سے مقاصد؟ مجھے تو پہلی با رمعلوم ہوا ہے کہ ہمیں کچھ نئے مقاصد پر بھی کام کرنا ہے۔” آہو برتن دھّوتے ہوئے بولی۔

“یہ مقاصد میرے ذاتی ہیں۔ ” بانگ بولا۔

“اچھا!!! تو چلو شروع ہوجاؤ، تمھارا مقصد نمبر ون کیا ہے؟” آہو برتن دھونا  ادھورے چھوڑ کر صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔

“ارے! یہ کھڑکی پر کون ہے۔ وہ دیکھو آہو! ایک سایہ۔” بانگ چونک کر بولا۔

آہو اٹھی اور کھڑکی کی طرف بڑھی۔ سایہ اتنی دیر میں ہٹ چکا تھا۔ آہو نے کھڑکی کھول کر دیکھا ۔ کوریڈور میں کوئی نہ تھا۔

“کوئی نہیں ہے بانگ۔ اب تم بتاؤ اپنے مقاصد۔” آہو کھڑکی بند کرکے دوبارہ صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔

“پہلا مقصد ہے ان اساتذہ کو بے نقاب کرنا جو کمرے میں بیٹھ کر نوجوان طالبات کے ہاتھ دیکھتے ہیں۔”بانگ بولا۔

“بانگ! تم شاید پاگل ہوگئے ہو۔ میں نے بھی چار سال اسی شعبے سے پڑھا تھا۔ میر اتو ہاتھ کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ “آہو ہنسی۔

“ہاں! مگر اب  دیکھتے ہیں۔اور نوجوان لڑکیاں اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اپنے سمسٹر کے نمبر، اپنی انٹرن شپ کا لیٹر اور اپنا کیرئیر دیکھتی ہیں۔ ” بانگ نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “وہ  دیکھو! پھر سایہ گزرا۔ تم رکو ۔ میں دیکھتا ہوں۔ ”

بانگ اٹھا۔ کھڑکی کھولی۔ سایہ جاچکا تھا۔ کوریڈور خالی تھا۔ وہ کھڑکی بند کرکے دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔

“ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ تمام اساتذہ باکردار و شفیق ہیں۔ تم کسی ایک لڑکی کا مجھے نام اور فون  نمبر بتاؤ۔ میں ابھی اس سے فون کرکے پوچھتی ہوں۔” آہو بولی۔

“بتادوں گا۔ میں نے ویڈیو بھی بنائی ہے ۔ لیکن یہ میں کسی چینل پر ملازمت کرکے ایک مکمل پروگرام کرکے ظاہر کروں گا۔ “بانگ بولا۔

“کہاں کرو گے یہ پروگرام؟ اورکیا مقاصد ہیں جناب کے؟” آہو کو اب لطف آرہا تھا۔ یہ ایک بہترین کامیڈی تھی ۔  

“دوسرا مقصد تیسرے سمسٹر کے  ان دو طلبہ کے خفیہ قتل کی سازش کو بے نقاب کرنا ہے جنھوں نے شرارتاً پروفیسر مولوی کا چرمی بیگ کھول کر اس میں مرا ہوا کاکروچ ڈالنا چاہا تھا اور ان کے بیگ میں ڈرگ دیکھ لی تھی ۔” بانگ بولا۔

آہو  صوفے پر الرٹ ہوکر بیٹھ گئی۔

” بانگ! تمھارا مطلب ہے کہ ڈھائی تین سال قبل  وہ دونوں لڑکے جوساحل سمندر میں  ڈوب کر مر گئے تھے،انھوں نے پروفیسر مولوی کے بیگ میں ڈرگ دیکھی تھی؟” آہو بولی۔

“تم اتنی جلدی نہ کرو۔ مجھے نوکری ملنے دو، پھر میں اپنے پروگرام میں سب کے چہرے بے نقاب کروں گا۔ ” بانگ بولا۔

“ایک منٹ رکو۔” آہو بولی اور اس نے ڈاکٹر بیدل کو فون ملایا۔

“ہیلو ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب۔۔۔ جی جی۔۔۔ بس ایک منٹ لوں گی۔۔۔ نکس وومیکا کے دو قطرے کھلائے تھے  بانگ کو۔۔۔ لیکن آج پھر اول فول۔۔۔ جی جی۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔(کچھ توقف کے بعد) ۔۔۔ میں موٹر سائیکل والے رائیڈر کو بھیج دیتی ہوں۔ وہ آپ کے کلینک سے دوا لے کر مجھے پہنچا دے گا۔ ۔۔۔جی بہتر۔ شکریہ۔” آہو نے فون رکھا اور اپنے فون پر آن لائن موٹر سائیکل کی ایپلی کیشن کھولی اور موٹرسائیکل والے کو ڈاکٹر بیدل کے کلینک سے دوا لانے کا آرڈر دیا۔

“بانگ۔ تم کھڑکی کے پاس کیا کررہے ہو؟ کیا پھر وہی سایہ؟” آہو بولی۔

“ہاں۔ لیکن کوئی ہے جو میری باتیں سنتا ہے۔ “بانگ بولا۔

دیکھو بانگ۔ تم نکس وومیکا باقاعدگی سے صبح دوپہر شام کھا لیا کرو۔ پیٹ بھی صحیح رہے گا اور دماغ بھی۔ “آہو بولی۔

“ہاں، آج صبح کھانا بھول گیا تھا۔ پیپر کی ٹینشن تھی۔ دوپہر میں یونیورسٹی میں کھانا کھایا تھا لیکن دوپہر کی دوا بھی نہیں کھاسکا تھا۔ بھول گیا تھا۔” بانگ دھیمے لہجے میں بولا۔  

“دیکھو بانگ۔ یہاں کیا ہوتا ہے، کون جیتا ہے، کون مرتا ہے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ تم صرف یہاں زبان و ادب کا علم حاصل کرنے آئے ہو اور بس۔ واپس جاکر تمھیں میرے ہی اخبار میں ملازمت کرنی ہے۔ ہم نے ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ بس۔اس سے زیادہ اور کچھ نہ سوچو۔ ” آہو  نے اسے سمجھایا۔

“ٹھیک ہے۔ ارے  میرا فون بجنے لگا۔ہیلو! جی جناب۔ جی جی۔ کیا؟ زبانی امتحان؟ لیکن یہ تو پہلے سے طے نہ تھا۔چلیں ٹھیک ہے۔ میں کل آجاو ٔں گا۔ “بانگ نے فون بند کردیا تھا۔

“کون تھا؟”آہو بولی۔

“شعبے سے فون تھا۔   ایم اے اردو کے آخری پرچے کے بعد تمام طلبہ کا ایک زبانی امتحان بھی ہوگا۔کہہ رہے تھے صرف خانہ پری کے لیے ہے۔ ” بانگ نے بتایا۔

“لیکن میرا تو کوئی زبانی امتحان  یا انٹرویونہیں ہوا تھا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ کب ہے زبانی امتحان؟”آہو بولی۔

“کل صبح نو بجے۔پہلا رول نمبر میرا ہی ہے۔ “بانگ بولا۔

“چلو۔ تمام نوٹس اور کتابیں تو تازہ ہی ہیں تمھاری یادداشت میں۔ کل نو بجے چلیں گے۔”آہو بولی۔

دروازے پر دستک ہوئی۔ پھر ڈور بیل  بجی۔ڈاکٹر بیدل کی دوا لے کر موٹر سائیکل والا آگیا تھا۔ آہو نے دوا لی،   قیمت ادا کی اور دروازہ بندکردیا۔

اگلی صبح نو بجے  شعبے میں خاصا رش تھا۔ ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ اتنی ہنگامی حالت میں انٹرویو رکھنا تو کوئی معقول طریقہ نہیں ہے۔

 شعبے کا کلرک سب کو یہی کہہ رہا تھا کہ اب ڈگری کا ملنا انٹرویو سے مشروط ہوگیا ہے۔ لیکن چوں کہ یہ پہلا موقع ہے، اس لیے صرف خانہ پری ہوگی اور واجبی سا انٹرویو یا زبانی امتحان لیا جائے گا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ کیا  واقعی امتحان کے روز  آپ لوگوں نے اپنے ذہن سے سوچ کر جوابات لکھے تھے یا نہیں۔ اس سے ان لائق طلبہ کو بھی فائدہ ہوگا جو طبیعت کی خرابی کے باعث امتحانی  پرچہ اچھی طرح  حل نہیں کرسکے تھے ۔ اب وہ انٹرویو میں درست جوابات دے کر اپنا نتیجہ بہتر کرسکتے ہیں۔

“رو ل نمبر ون۔ بانگ جان۔ ” کلرک نے پکارا۔

بانگ کمرے کے اندر چلا گیا۔ کچھ طلبہ کھڑکی کے پاس کھڑے ہوگئے تاکہ بانگ سے ادر  پوچھے جانے والے  سوالات سن سکیں۔

اندر سات آٹھ افراد جمع تھے۔  بانگ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔

ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی مجرم ہو اور عدالت میں موجود ہو۔

“مسٹر بانگ۔ پروفیسر بانگڑو کے متعلق کچھ بتائیے ۔” ایک تلک لگائی ہوئی  اجنبی خاتون نے  بانگ سے سوال کیا ۔ ان کا موبائل کیمرہ آ ن تھا۔

“پروفیسر بانگڑو اس ملک کے مایہ ناز ۔۔۔۔ ” بانگ بولنے لگا ۔

اچانک اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ کھڑکی پر دو تین سائے نظر آئے۔

“لیکن پروفیسر بانگڑو کا بیٹا جو اب شعبے میں پروفیسر ہے، بالکل گھٹیا اور بدکردار شخص ہے۔ تین بجے سے ساڑھے تین بجے تک اس کا کام نوجوان لڑکیوں کے ہاتھ دیکھنا ہے۔ میرے پاس ویڈیو ز ہیں۔ ریکارڈ ہے۔ ہر پیر کے روز  ا س کے کمرے میں۔۔۔” بانگ  باری باری لڑکیوں کے نام گنوانے لگا۔  کمرے میں سناٹا چھا گیا۔

“اچھا ، ڈاکٹر داس  کی علمی و تحقیقی خدمات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟” ایک کوٹ پینٹ پہنے شخص نے سوال کیا ۔

“لیکن ڈاکٹر داس کے بارے میں تو امتحان میں کوئی سوال نہیں آیا۔ ” بانگ بولا۔ اسے پھر کھڑکی  پر سائے دکھائی دیے۔” اور اگر آتا بھی تو میں حل نہ کرتا۔ اس کے بیٹے کو دیکھا ہے ۔ نام ہے پروفیسر مولوی۔ لیکن اس کا مذہب کیا ہے، کسی کو نہیں معلوم۔ لیکن مجھے معلوم ہے۔ اس کا مذہب ہے  ڈالر کمانااور معصوم لڑکوں کو قتل کرانا۔ اس نے شعبے کے بہترین اساتذہ کو نوکری سے نکلوا دیا۔ ان کے کردار پر کیچڑ ااچھالا۔ دو  تین کو تو ایک مصروف شاہراہ پر مروادیا۔” بانگ بولتا جارہا تھا۔

آہو باہر پریشان بیٹھی تھی۔ چالیس منٹ ہوچکے تھے۔ بانگ نے صبح دوا نہیں کھائی تھی او ر وہ بھی اسے یاد دلانا بھول گئی تھی۔

بانگ اندر چالیس منٹ سے بھی زیادہ بولتا رہا۔

انٹرویو پینل کے اراکین مسلسل ویڈیو بناتے رہے اور اپنے نوٹس لکھتے رہے۔

کوئی ایک گھنٹے بعد بانگ باہر آیا۔

“بھئی آج تو بانگ بازی لے گیا۔ اتنا طویل انٹریو۔ اب تو بانگ کا فرسٹ ڈویژن پکا سمجھو۔ بانگ مٹھائی۔۔۔بانگ مجھے برگر۔۔۔۔” بانگ دوستوں کی آوازیں سنتا رہا۔

آہو اسے گھر لے آئی۔

گھر میں ڈکیتی ہوچکی تھی۔   سارا گھر بکھرا ہوا تھا۔

بانگ کا  موبائل فون، ویڈیو کیمرہ،   رجسٹر، یو ایس بی، لیپ ٹاپ، سب چوری ہوچکا تھا۔

آہو کو چکر آگیا اور وہ تھوڑی دیر کے لیے صوفے پر بیٹھ گئی۔ ظالموں نے صوفہ تک ادھیڑ کر دیکھا تھا کہ صوفے کے اندر کیا تھا۔

لیکن  ساری رقم آہو نے بینک میں محفوظ رکھی تھی۔گھر میں ایک نوٹ بھی وہ نہ رکھتی تھی۔ صرف ضرورت کی رقم اور وہ بھی اپنے پرس میں یا بانگ کے والٹ میں۔

آہو نے اسی وقت سفارت خانے کو فون ملایا۔  سفارت خانے نے ان مدد کی اور وہ فوراً سفارت خانے کے گیسٹ ہاو ٔس منتقل ہوگئے۔ ایک ہفتے تک  سفارت خانے نے انھیں  اپنے گیسٹ ہاؤس میں محفوظ  رکھا۔ پھر وہ رات کے اندھیرے میں  اپنے ملک پرواز کرگئے۔

کچھ ماہ بعد بانگ کو یونیورسٹی کی جانب سے ایک لیٹر موصول ہوا۔ لکھا تھا کہ بانگ کا انٹرویو ناکام رہا۔ اسے ایم اے کا آخری سال دوبارہ پڑھنا ہوگا ورنہ ڈگری نہیں ملے گی۔ فی الحال وہ ایم اے پاس نہیں کہلا سکتا۔ یونیورسٹی  ابھی اس سے  کارکردگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔

“بانگ۔ میری ایک بات مانو۔ تم یہاں گاڑیوں  کی مرمت کا کام سیکھ لو۔ صرف ایک سال کا کورس ہے۔  میں نے داخلہ فارم  کا لنک تمھیں بھیجا ہے۔ ویسے بھی تم ہر لحاظ سے سائنس  اور ٹیکنالوجی کے آدمی ہو۔ یہ آرٹس کا مضمون تم پر جچتا نہیں ہے۔ ” آہو نے بانگ کو مشورہ دیا۔ اسے بھی ایک لیٹر موصول ہوا تھا جسے پڑھ کر وہ گھبرا گئی تھی۔

“یار آہو۔ واپس یونی ورسٹی چلتے ہیں۔ صرف ایک ہی سال کی تو بات ہے۔ پھر میرے مقاصد؟ ان کا کیا ہوگا؟”بانگ بولا۔

“دیکھو بانگ۔ ہمارا مقصد ایک خوش گوار زندگی گزارنا ہے۔ اس کے لیے رقم کمانے کے بارے میں سوچو۔ میرے بینک اکاونٹ میں اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم دوبارہ یونی ورسٹی جاکر ہاسٹل  کے تنگ سے فلیٹ میں رہیں۔ اور ویسے بھی اب مجھے  اگلے تین سال تک چھٹی نہیں ملے گی۔”آہو نے بانگ کو مایوس کردیا۔

“ہونہہ۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔ مجھے بھی سائنس  اور ٹیکنالوجی کی باتیں زیادہ سمجھ میں آتی ہیں۔  مکینک کا کام بھی اچھا اور صاف ستھرا ہے۔ اب دیکھو نا، بی ایم ڈبلیو کے مکینک کی تنخواہ یونی ورسٹی   کے  استاد کی تنخواہ سے دگنی ہے۔امریکی گاڑیوں کے مکینک تو اور بھی زیادہ کما رہے ہیں۔  چلو ٹھیک ہے آہو۔” بانگ مان گیا۔ آہو نے  سکھ کا سانس لیا اور ڈاکٹر بیدل کی لائی ہوئی دوا کچرے کی ٹوکری میں ڈال دی۔