تیسرا دیدار

یہ تحریر 651 مرتبہ دیکھی گئی

آسمان کے آنگن میں سفید رنگ کے بادل جن میں گہری سبز مائل جھیل کے پانی نے ہلچل مچا دی تھی تیر رہے تھے۔ پہاڑ کی چوٹی بادل کو گدگدا کر مسکرا دیتی اور پہاڑوں پر لیٹا سبزہ یہ کھیل دیکھ کر خوش ہوتا ہوا بادلوں کی روانی کو تکتا رہتا۔ ایک جانب پہاڑ خوش تھے کہ ان میں بادل کا سینہ چیرنے کی طاقت ہے تو دوسری جانب بادل اس رمز پر نازاں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں اسے چیر کر مزید وسعت دینے کا باعث بنتی ہیں۔جلال بابا اپنے گھر ، پہاڑی ڈھلوان پر ہونے کی وجہ سے جس کا آنگن ہمسایہ کے چھت کے برابر تھا، کے دائیں کونے میں پڑے پانی کے مٹکے کی طرف جاتے ہوئے ودیعہ اور ائمہ کی سرگوشیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کے گاؤں میں آج جشن کا سماں تھا۔ کیونکہ وہاں ایک شادی تھی۔ اور وہ لمحہ آنے والا تھا جب دو روحوں کو ایک بندھن میں باندھا جانا تھا۔ بارات آنے والی تھی اور ودیعہ اور آئمہ کی سرگوشیوں کا محور وہی بارات تھی۔ شہنائی بجی اور شہنائی کی آواز کے ساتھ ہی ائمہ نے خوشی میں چیخ کر کہا، ”ودیعہ بارات!“ ودیعہ نے ائمہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ”چلو ائمہ, دولہا کو دیکھنے چلتے ہیں۔ “ائمہ، جس کی عمر محض دس برس تھی، یہ سن کر حیران ہو کر کھڑی ہو گئی اور ودیعہ، جو ائمہ سے دو برس بڑی تھی، سے سوال کر دیا۔”دیکھی تو بارات جاتی ہے کیونکہ اس میں لوگ ناچ رہے ہوتے ہیں اور شہنائی بجائی جا رہی ہوتی ہے، مگر دولہا کو بھی دیکھا جاتا ہے؟“ودیعہ، آسمان کے آنگن میں اڑتے شاہین، جو پہاڑ کی چوٹی سے بادلوں کی وسعت کی جانب محو پرواز تھا، کو دیکھتے ہوئے ائمہ کے سوال کا جواب نہ دے پائی تھی کہ جیلال بابا نے پانی پیتے ہوئی پیچھے مڑ کر دیکھا اور پانی کا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے کہا: ” ہاں میری پری، دولہا بھی دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ دولہا ہی دیکھا جاتا ہے۔“ ائمہ بات کو سمجھ نا پائی اور سوال کر دیا، ” دولہا کیوں دیکھا جاتا ہے؟ نانا ابو“مٹی کا گلاس مٹکے پر رکھتے ہوئے، جیلال گویا ہوا: ”دیکھ ائمہ، ہر آدمی کے اس کی زندگی میں تین دیدار کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات صرف دو۔ اور شادی کے دن دولہا کو دیکھنا ان تین دیداروں میں دوسرا دیدار ہے، اس وجہ سے دولہا کو دیکھا جاتا ہے۔ “تین دیدار، دو دیدار، دوسرا دیدار یہ الفاظ ائمہ کے بچگانہ ذہن میں سما نہ سکے اور دیر تک اس کے کانوں میں گونجتے رہے اور وہ ان الفاظ کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ کچھ دیر بعد بولی، ” تین دیدار! صرف تین دیدار ہی کیوں کئے جاتے ہیں؟“ودیعہ، جو بارات اور دولہا کو دیکھنے کے لیے بے تاب کھڑی تھی، نے ائمہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے جانا چاہ۔ مگر ائمہ جواب کے انتظار میں وہیں کھڑی رہی۔” دیکھ میری بیٹی، ہر آدمی کے تین دیدار کئے جاتے ہیں اور حقیقی معنوں میں یہی تین دیدار آدمی کی زندگی کی کُل کتھا ہے۔ پہلا دیدار اس وقت کیا جاتا ہے جب بچہ عالم روحانی سے عالم خاکی میں بطور مسافر پہلا قدم رکھتا ہے۔ میرا مطلب ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ بچپن، لڑکپن ، نوعمر اور جوانی کے پڑاؤ عبور کرتا ہوا اس منزل پر پہنچتا ہے جہاں اس کا دوسرا دیدار کیا جانا ہوتا ہے۔ اس دیدار کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہی وہ دیدار ہے جس کا اختیار کسی حد تک خود فرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس منزل کا نام ہے بیاہ“”بیاہ؟“ ائمہ کو لفظ سمجھ میں نہ آیا۔”شادی“”اور تیسرا دیدار ؟“جیلال بابا جو اپنے دوسرے دیدار کی یادوں کی وادی میں کھو گئے تھے چونک اٹھے اور بتانا شروع کیا، ” ہاں بیٹی ائمہ تیسرا دیدار۔ تیسرے دیدار کو دیدار مردہ کہتے ہیں۔“ائمہ نے سوال بھری نظروں سے جیلال نانا کو دیکھا تو جیلال بابا نے سوال بھانپتے ہوئے آئمہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور بولتے گئے۔”جب بندہ عالم مادی سے عالم برزخ کی جانب کوچ کرتا ہے، یعنی اس کی موت واقع ہو جاتی ہے، اس وقت جو دیدار کیا جاتا ہے، اسے کہتے ہیں دیدارِ مردہ اور یہی دیدار کی سب سے اعلیٰ قسم ہے۔“”اعلیٰ قسم! اعلیٰ کیوں؟“ ائمہ نے معصومیت سے پوچھا۔ودیعہ جو شہنائی کی آواز کی طرف بار بار متوجہ ہو رہی تھی، دروازے تک گئی مگر پھر واپس لوٹ آئی۔ کیونکہ وہ ائمہ کے بغیر نہیں جانا چاہتی تھی۔”اس وجہ سے بیٹی کہ اس دیدار پر بندہ اس سفر کو ختم کرتے ہوئے جو پہلے دیدار سے شروع ہوا تھا انتظار گاہ میں پہنچ جاتا ہے۔“ جیلال بابا نے باہر ڈھلوان پر رنگ برنگے ملبوسات میں ملبوس مرد و زن کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔”انتظار گاہ ؟ نانا جان انتظار گاہ تو نئے سفر کی ابتدا یا کسی سے ملاقات کی خاطر اس کا انتظار کرنے کے لیے ہوتی ہے۔“”ہاں میری لال، تم صحیح کہہ رہی ہو“ جیلال نے کسی سوچ کے آنگن میں اترتے ہوئے کہا۔” نانا جان، مرنے کے بعد بندے کو کس کا انتظار ہوتا ہے اور کیسا انتظار ہوتا ہے اور وہ انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟“”انتظار!“ جیلال بابا نے آہ بھرتے ہوئے کہا، ” بیٹی بعد میں بتاؤں گا، لمبا واقعہ ہے، تم ودیعہ کے ساتھ بارات دیکھنے جاؤ۔ “مگر ائمہ چند قدم نانا کی طرف بڑھی اور کہا، ” نانا جان مجھے ابھی بتائیں، میں تو نہ جاؤں گی۔“ائمہ کی ضد دیکھ کر جیلال بابا نے بتانا شروع کیا، ” میری بیٹی اسے انتظار ہوتا ہے رب العالمین سے ملاقات کا۔ جب اللّٰہ نے آدم کو تخلیق کیا تو اسے حکم دیا کے جو چاہے کھائے پیئے مگر ایک شجر کو شجر ممنوعہ قرار دیتے ہوئے رب کائنات نے آدم سے کہا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم ظالم ٹھہرو گے۔ آدم نے عزازیل کے بہکاوے میں آ کر شجر ممنوعہ کا پھل کھایا، تو رب کائنات نے غلطی کی سزا کے طور پر آدم کو عالم بقا سے در بدر کرتے ہوئے عالم فانی میں بھیج دیا۔ عالم فانی انسان کے لیے زنداں یعنی جیل کی مانند ہے۔ اور جیل میں حسرتیں لفظ تکمیل سے نا آشنا ہوتیں۔ عالم فانی میں آکر انسان کے اندر خدا کا دیدار کرنے کی حسرت پیدا ہوئی۔ پہلے جب آدم عالم بقا میں تھا باآسانی خدا تعالی کا دیدار کر لیا کرتا تھا۔ مگر اب خدا کی تخلیق کی گئی جیل یعنی دنیا میں سزا یافتہ تھا، اس وجہ سے دیدار کی حسرت تکمیل نہ ہو پائی اور رفتہ رفتہ شوق میں بدلتی گئی اور شوق عشق کا روپ اختیار کر گیا۔ عشق میں انتظار کا وقفہ بہت طویل محسوس ہوتا ہے۔ جب تک سزا ختم نہیں ہوتی وہ انتظار گاہ میں نہیں جا سکتا۔ اور انتظار گاہ میں جب تک نہیں جائے گا اس کے لیے خدا کا دیدار کرنا ممکن نہیں۔ انسان زندگی کی صورت میں سزا کاٹ رہا ہے اور تب سے اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ کب سزا کا آخری دیدار کیا جائے اور وہ عالم برزخ، میرا مطلب ہے انتظار گاہ، میں پہنچے۔ یہ انتظار بہت طویل ہے۔“ یہ کہتے ہوئے جیلال کی آنکھیں بھر آئیں۔باہر شہنائی بجی، گولا پھٹا جھومر سے گھنگھرو چھنکے۔ ودیعہ جو اب تک بارات اور دولہا دیکھنے کے انتظار میں بیٹھی تھی، مزید انتظار نہ کر پائی اور ائمہ کو کھینچ کر باہر لے گئی۔ آنگن میں دیر تک الفاظ گونجتے رہے، یہ انتظار بہت طویل ہے! بہت طویل! طویل!۔