تعمیر میں مضمر خرابیاں

یہ تحریر 907 مرتبہ دیکھی گئی

“مکلی میں مرگ” جیسے ناول اردو میں نہیں لکھے جاتے۔ اس ناول میں نہ حسن و عشق کا چرچا ہے نہ طبقاتی کشمکش ہے نہ عبارت آرائی۔ نثر متانت کی حامل ہے لیکن یہ وصف ادب کی نسبت ذمے دار صحافت سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے۔ دنیا کیا ہے، کن معانی کی حامل ہے، جسم و روح کی دوئی حقیقی ہے یا فرضی، برق رفتاری سے بدلتی دنیا میں روایتی اقدار کو مات کھانے سے بچانا ممکن ہے یا نہیں اور اگر ممکن ہے تو کیسے۔ ان سب باتوں پر مصنف نے غور کیا ہے اور ضروری نہیں کہ فکر کی یہ رو ناول میں موجود کرداروں کی ہو۔ عورتوں سے بھی کم سروکار رکھا گیا ہے۔ ایک عورت تھوڑی دیر کے لیے سامنے آتی ہے اور سراسر ریاکار اور مطلبی ثابت ہوتی ہے۔ ایک لڑکی کا ذکر بھی ہے جو بچپن اور لڑکپن میں اپنی دادی کے ہمراہ مزاروں پر جایا کرتی تھی۔ اسے ناول میں جگہ کیوں دی گئی ہے یہ واضح نہیں۔
ناول فنِ تعمیر کے مختلف پہلوؤں، پرانی عمارتوں، قبرستانوں اور مزاروں سے تعلق رکھتا ہے۔ کردار ہیں تو سہی لیکن کچھ اس انداز سے نظر آتے ہیں جیسے وہ بھی کسی تعمیر کا حصہ ہوں۔ مرکزی کردار کا تعین بھی اٹکل سے کیا جا سکتا ہے۔ ناول کی ابتدا ارسلان منصور سے ہوتی ہے اور اختتام پر بھی ہم اسی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس لیے اسے ناول کا مبہم سا مرکز مان لینے میں حرج نہیں۔ اس کے والدین پاکستان سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ ارسلان وہیں پیدا ہوا اور وہیں اس
نے آرٹیکچر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اسے اپنے اصلی وطن کی کشش پاکستان کھینچ لائی۔ بیسویں صدی میں ادب ہو یا فنون سبھی کو ایک سے دبدھے کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ روایت اور جدت کے مابین توازن کیسے قائم رکھا جائے یا نئی دنیا کے تقاضوں سے مرعوب ہو کر روایت کو تج دیا جائے۔ مسئلہ ہے تو گھمبیر لیکن ناول میں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ تعمیر کیسی ہوگی جس میں روایتی پہلو جدید تقاضوں پر حاوی ہوں۔
دوسرا اہم کردار طارق اسماعیل ہے۔ وہ بھی آرکی ٹیکٹ ہے لیکن یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد صحافت سے وابستہ ہو گیا اور مزارات، مساجد اور مذہبی تقریبات کا احوال قلم بند کرنا اس کی صحافتی ذمے داریوں میں شامل ہوا۔ تعمیراتی ٹھیکوں میں کہاں کہاں اور کیسے گھپلے ہوتے ہیں، ان کا سراغ لگانے میں اسے خاصی دلچسپی ہے۔
ان کے علاوہ عرفانہ خان اور آفتاب علی بھی آرکی ٹیکٹ ہیں اور بڑی حد تک جدیدیت کے قائل۔ آغا کامل بھی آرکی ٹیکٹ ہے لیکن روایات اور تصوف سے لگاؤ رکھتا ہے۔ اسے جدید طرزِ تعمیر بے روح معلوم ہوتا ہے۔
زیادہ پُراسرار کردار بابا مستان کا ہے جو پنجاب میں صوفیوں کے مزاروں پر گھومتا رہتا ہے۔ طارق اسماعیل بھی اس کی شخصیت کو سمجھنے میں ناکام ہے۔
ناول تمام تر تعمیری مسائل کے بارے میں ہے اور دو معاملات “وارث شاہ میموریل کمپلیکس” اور “بی بی پاکؒ” بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ناول کو پڑھ کر بہت سے قارئین کو ایسی باتوں سے آشنائی حاصل ہو سکتی ہے جن پر انھوں نے شاید کبھی کوئی خاص توجہ نہ دی ہو۔ غافر شہزاد کی نظر معاشرے کے بگاڑ پر بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بعض باتوں یا روایتوں کو بار بار دہرایا جائے تو ان میں سچائی کا ٹھوس پن پیدا ہو جاتا ہے، چاہے اصل میں وہ بے بنیاد ہوں۔ ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے علم کا قبرستان بن چکے ہیں۔ بہت سی این جی اوز کی آڑ میں ذاتی مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ سائیں پپو ڈھولچی کے فن سے پیرزادہ فیملی نے کیسے فائدہ اٹھایا۔ سائیں پپو بدستور اپنے چھوٹے نیم پختہ آبائی مکان میں رہتا ہے اور پیر زادہ فیملی ایک پوش علاقے میں آٹھ سو نشستوں کا ایر کنڈیشنڈ اوڈی ٹوریم بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
ایک لحاظ سے کتاب کا موضوع ہماری طرزِ فکر اور طریقہ ہائے کار پر، جو پُرفریب، استحصالی، فرقہ وارانہ اور سفاہت آمیز ہیں، طنزِ ملیح ہے۔ اگر اس ضمن میں ناولانہ کشش کا بھی کچھ اہتمام کیا جاتا تو کتاب میں قاری کو متاثر کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ۔
مکلی میں مرگ از غافر شہزاد
ناشر: فکشن ہاؤس، لاہور
صفحات: 205؛ چار سو پچاس روپیے