بُوڑھے اور سمندر

یہ تحریر 2337 مرتبہ دیکھی گئی

انتظار حسین کے ناولوں میں سرنگ کے آخر میں روشنی تو نظر آتی ہے لیکن اس طرف نہیں جدھر قدم اٹھتے ہیں۔ روشنی ہمیشہ کہیں پیچھے ہوتی ہے، بہت دور۔ کسی اسطوری بچپن اور لڑکپن کی یاد یا کسی بچپن اور لڑکپن کی اسطوری بازیافت کی صورت میں، روشنی، رنگ اور رونق سے لبالب۔ لیکن اس کے بعد کیا کردار، کیا بیانیہ اندھیری بھول بھلیّاں میں ٹکریں مارتے نظر آتے ہیں۔ ٹمٹماتے منظروں کی ادھوری جھلکیاں آنکھوں میں گھومتی ہیں۔ اسطورہ دونوں طرف ہے۔ ایک جانب دُھلا دُھلایا، جیسے کسی عید کی صبح۔ دوسری جانب کا بوسی جس میں بے سروپا تاریخ کے ملبے میں دبے لوگ کراہتے اور پکارتے رہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ سننے والا کوئی نہیں یا ہیں بھی تو انہیں کچھ اور ڈھانے کی پڑی ہے۔

انتظار کے پچھلے دو ناولوں کے مقابلے میں اس نئے ناول میں خاص تبدیلی یہ ہے کہ منظرنامہ کراچی منتقل ہو گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں کراچی بھی نظر نہیں آتا۔ کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ انتظار نے اس مرتبہ ہنگامی نوعیت کے موضوع کو چنا ہے تاکہ کوئی یہ الزام نہ دھرسکے کہ وہ اِردگرد پیش آنے والے واقعات سے بالعموم کوئی بامعنی سروکار نہیں رکھتے۔ لیکن معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔ کراچی کو چننے کی ایک خاص وجہ ہے۔ وہاں بھارت سے آنے والے لوگ کثرت سے آباد ہیں اور مہاجرت کا تجربہ، اس کے مضمرات، اثرات اور سود و زیاں ان کی رگ رگ میں رچے ہوے ہیں۔ یہی وہ موضوع ہے جس سے انتظار کو شغف ہے۔ مہاجرت کا تجربہ کوئی پاکستان تک یا بیسویں صدی تک محدود نہیں۔ تاریخ کی ابتدا سے انسان دربدر ہوتے آئے ہیں۔ مہاجرت جوا ہے۔ بعض لوگ نئی جگہ پہنچ کر کندن بن جاتے ہیں اور بعض ہمیشہ کے لیے ایندھن۔

لیکن اس پہلو پر کہ ”کیا کھویا، کیا پایا“ وہی روشنی ڈال سکتا ہے جس کے پاس تقابل کی غرض سے یادوں کا کوئی اچھا بھلا ذخیرہ ہو۔ اب کہ پاکستان کو بنے پچاس سال ہونے والے ہیں ہجرت کر کے آنے والوں میں ایسے افراد عمررسیدہ اور اَدھیڑ ہی ہو سکتے ہیں۔ اس مجبوری کے تحت ناول کے تمام کردار بوڑھے ہیں اور محض تماشائی۔ کراچی میں جو حشر مچا ہؤا ہے اس کے ڈانڈے نوجوانوں کے مسایل سے ملتے ہیں۔ وہی ہنگامہ آرائی میں پیش پیش ہیں اور انہیں کے لیے ناول میں ذرا سی بھی جگہ نہیں نکل سکی۔ چنانچہ ہم جن کرداروں سے دوچار ہوتے ہیں وہ نہ صرف نئی نسل سے کٹ چکے ہیں بلکہ ہر قسم کی معنویت سے بھی۔ اس لیے نہ تو ان کی سمجھ میں کچھ آتا ہے اور نہ اصلاحِ احوال کے لیے کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ بس ان کی زبان بہت چلتی ہے۔

خیر، بے چارگی یا لاتعلقی کی رودادبھی ناول میں جان ڈال سکتی ہے۔ دقت یہ ہے کہ ناول یک طرفہ ہے۔ اس میں کوئی تناؤ یا ٹکراؤ نہیں۔ نہ اقدار کا نہ آدرشوں کا نہ نسلوں کا۔ بس چند ایسے افراد کی بے لطف زندگی کا ذکر ہے جن سے ہمدردی تو کجا نفرت بھی نہیں کی جا سکتی۔ اگر ناول کا مقصد صرف اتنا ہے تو اسے کامیاب قرار دینے پر شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔

بعض خصوصیات، جو انتظار کے پچھلے دو ناولوں میں تھیں، وہ یہاں بھی موجود ہیں۔ اس بات کی طرف بار بار اشارہ کرنا خود مجھے بھی اکھرتا ہے لیکن اس کے سوا چارہ نہیں۔ جن واقعوں اور چیزوں کو انتظار اپنے افسانوں میں کہیں زیادہ سلیقے سے کھپا چکے ہیں انہیں کی کتربیونت سے ناول کے کھانچے بھرتے جاتے ہیں۔ مثلاً ان کا ایک مرغوب موضوع ہے: راوی کسی ایسی لڑکی کو حسرت سے یاد کرتا ہے جس کے ساتھ بچپن میں کھیلا کرتا تھا لیکن بعد میں اپنا نہ سکا۔ یہ لڑکی ان کے فکشن میں نام بدل بدل کر نمودار ہوتی رہتی ہے۔ اس تکرار کی غایت سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر یہ بیاترچے کی مثیل ہے تو اس کی رہنمائی میں کوئی کونیاتی سفر طے نہیں ہوتا۔

انتظار کے سامنے کوئی بڑا ڈیزائن تو ہے اور اجزائے ترکیبی بھی دسترس میں ہیں مگرتاحال وہ ان اجزاء کو اس طرح ترتیب نہیں دے سکے کہ کوئی چونکا دینے والا فن پارہ وجود میں آ جائے۔ ایک اعتبار سے وہ اپنے آپ کو دہرا رہے ہیں اور دہراتے بھی بے دلی سے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ان کا بہت سی باتوں پر سے یقین اُٹھ چکا ہے۔ دل ہی دل میں وہ زبان کی تاثیر اور فکشن کی اثرآفرینی کے شاید قایل نہیں رہے۔ دَور ہی ایسا ہے کہ ہم میں سے کم کسی چیز کے بارے میں پُریقین یا رجائی ہو سکتے ہیں۔ آج کل کوئی متیقّن اور رجائی نظر آئے تو وہ یا تو ریاکار ہو گا یا پہنچا ہؤا۔

انتظار کے ناولوں کے مرکزی کردار تاریخ زدہ انسان ہیں۔ وہ دوسرے کرداروں سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ ان پر اپنی (شخصی) یادوں کا بوجھ تو ہے ہی، اس سے کہیں زیادہ غیرشخصی (تاریخی) ورثے کا بوجھ ہے۔ برِّصغیر کے مسلمان کے طور پر وہ بڑی دبدھا میں ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی تاریخ کو اپنے وجود سے منہا نہیں کر سکتے بلکہ اس سرزمین کے ماضی کے سحر سے آزاد ہونا بھی انہیں ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ ماضی ہندوانہ بھی ہے، بدھ مت کا بھی ہے، استعماری بھی ہے۔ مزید یہ کہ پوری اسلامی تاریخ بھی، اپنی شوکتوں اور شکستوں سے، ان کی روحوں کو چھلنی کرتی رہتی ہے۔ ہر اس آدمی کی طرح، جو ماضی کا گہرا شعور رکھتا ہے، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی مختلف جہتوں سے، اتنی بلندیوں اور پستیوں سے، آبرومندانہ طور پر کس طرح نباہ کریں۔ ایک اور ستم یہ ہے کہ بھارت میں رہ کر وہ خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کر کے غیرمطمئن رہتے ہیں اور پاکستان بھی ان کی بے اطمینانی کا مداوا نہیں بن سکتا کہ ملک کی مسلسل اخلاقی گراوٹ میں ہر شریف اور انصاف دوست آدمی خود کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنے پر مجبور ہے۔

”آگے سمندر ہے“ کے ہیرو، جواد، کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک نودولتیے شہر میں رہتا ہے جس سے ماضی کی کوئی عظمت وابستہ نہیں، ایسے لوگوں میں گھرا ہؤا ہے جن کے ماضی ذرا ذرا سے ہیں، ماضی —- جو شہروں، قصبوں، محلّوں، برادریوں، کنبوں، گزری زندگی کی خیالی آسودگیوں اور حال کی حقیقی تلخیوں تک محدود ہیں —-  جو بیمار ہیں کہ ان کے سامنے کوئی لائحہِ عمل نہیں۔ ناول کا دوسرا اہم کردار، مجو بھائی، جواد سے کہتا ہے: ”یار، تم بیمار آدمی ہو۔“ لیکن جواد بیمار نہیں، بارِامانت تلے دبا ہؤا ہے۔ مجو بھائی اور ان جیسے دوسرے کردار بارِامانت اٹھانے کو تیار نہیں۔ وہ صفر جمع صفر ہیں۔ ناول کے آخر میں پتا نہیں چلتا کہ مجو بھائی کا کیا انجام ہؤا۔ یہ جاننا ضروری ہے بھی نہیں کہ اتنے بہت سے کرداروں کے درمیان صرف جواد ہی زندہ ہے۔ اس کے لیے ماضی زندہ ہے۔ اس کے لیے تاریخ زندہ ہے۔ یہ جیتی جاگتی مگر غیرمادی حقیقتیں اس کی ذات میں کسی کو اکسائے رکھتی ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائی کے دوران اسے گولی لگتی ہے لیکن وہ موت کے دروازے کو چھو کر لوٹ آتا ہے۔ اسے زندہ رہنا چاہیے کہ وہی موجود اور ناموجود کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس کا زندہ رہنا تکنیکی ضرورت سہی لیکن بامعنی ہے۔ اگر ناول کو بے معنویت یا کھوکھلے پن کے خلاف بالواسطہ احتجاج سمجھ کر پڑھا جائے تو اس کی فضا کچھ اتنی نومیدانہ معلوم نہیں ہوتی۔