”باغ و بہار” اور “ہزار ویک روز“

یہ تحریر 2509 مرتبہ دیکھی گئی

الف لیلہ و لیلہ کی طرز پر ایک کتاب فارسی میں ”ہزار ویک روز“ کے نام سے مرتب کی گئی تھی۔ اتفاق سے اس کا فارسی متن اب ناپید ہے اور صرف فرانسیسی ترجمہ موجود ہے۔ یہ ترجمہ ایک فرانسیسی سفارت کار پیتی دے لاکروئے Petis De La Croix (۱۶۵۳ء – ۱۷۱۳ء) کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ سفارتی مصروفیات کے دوران میں کروئے، کچھ مدت ایران میں بھی رہا۔ اس کا کہنا ہے کہ ”ہزار و یک روز“ کا فارسی متن مخلص نامی ایک درویش نے فراہم کیا تھا جو ۱۶۷۵ء میں اسے اصفہان میں ملا تھا۔ مخلص کی یہ کتاب بظاہر ہندوستان میں مروج قصّوں کہانیوں پر مشتمل تھی۔ کروئے جب فرانس پہنچا تو فارسی متن اس کے پاس تھا۔ کروئے نے ان کہانیوں کو فرانسیسی میں منتقل کیا۔ اپنے وقت میں کروئے کو صاحب اسلوب نثرنگار سمجھا جاتا تھا اور اس کے ترجمے کو بہت سراہا گیا۔ کروئے کے سامنے جو فارسی متن تھا وہ ناپید ہے۔ اس وجہ سے بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ”ہزار و یک روز“ کروئے کے ذہن رسا کی تخلیق ہے اور مخلص درویش اور فارسی متن کا ذکر محض زیب داستاں ہے تاہم اس کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت مصروف سفارت کار تھا اور بعض دوسرے اہم سرکاری فرائض بھی اس کے ذمے تھے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ یہ کہانیاں اس نے گھڑی یا ازخود اکٹھی کی ہوں۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے ان قصوں کے بعض حصوں یا عبارتوں کو اخلاقی نقطہئ نظر سے معیوب سمجھ کر بدل دیا ہو۔

پچھلے دنوں ”ہزار و یک روز“ کے بعض قصوں کا انگریزی ترجمہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جو دو جلدوں پر مشتمل ہے اور ۱۸۹۲ء میں شائع ہوا تھا۔ کتاب کے مدون کا نام جسٹن منٹ لی میکارتھی ہے۔میکارتھی نے قصوں کا خود ترجمہ نہیں کیا بلکہ دو پرانے انگریزی ترجموں کو، جن میں سے ایک ۱۷۱۴ء کا اور دوسرا ۱۷۳۸ء کا ہے، سامنے رکھا ہے۔ غالباً اس نے ترجموں کی عبارت کو تھوڑا بہت درست اور چست کیا ہوگا تاکہ قدامت کا رنگ باقی نہ رہے۔ صرف پہلی جلد کو اول تا آخر دیکھنے کا موقع مل سکا جس کے دوران میں یہ انکشاف ہوا کہ کم از کم ایک قصہ ”بصرے کے ابوالقاسم کی کہانی“ بڑی حد تک ”باغ و بہار“ کے پہلے درویش کے قصے سے مشابہ ہے۔ کہانی کے متعلقہ حصے کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

قصے کی ابتدا سے غرض نہیں۔ اتنا بتانا کافی ہے کہ ابو القاسم قاہرہ سے فرار ہو کر بغداد جا رہا ہے۔ سفرکرتے کرتے وہ ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچا جس کے عقب میں ایک بڑا شہر آباد تھا۔ وہ رات گزارنے کے لیے ایک ندی کے کنارے ٹھہر گیا۔ پَو پھٹنے ہی والی تھی کہ اسے کچھ دور سے کسی عورت کے رونے اور کراہنے کی آواز آئی۔ ابوالقاسم اس طرف چلا جدھر سے آواز آئی تھی تو اسے ایک آدمی پھاؤڑے سے گڑھا کھودتا نظر آیا۔ ابوالقاسم جھاڑیوں میں چھپ کر دیکھنے لگا۔ گڑھا کھود کر آدمی نے کوئی چیز اس میں رکھی اور اوپر مٹی ڈال کر اپنی راہ لی۔ قاسم نے جا کر مٹی ہٹائی تو خون میں تر ایک بڑا بورا ملا۔ بورے میں زخموں سے چور ایک لڑکی تھی۔ پوشاک بہت عمدہ تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ لڑکی ابھی زندہ تھی۔ اس نے کہا کہ ”مجھے پانی پلاؤ اور مرہم پٹی کرو، میرے زخم کاری نہیں۔“ قاسم سے جو بن پڑا اس نے کیا۔ اس کے بعد لڑکی نے کہا کہ ”مجھے شہر لے چلو اور کوئی پوچھے تو کہنا کہ میں تمھاری بہن ہوں۔“ قاسم اسے اٹھا کر شہر لے گیا۔ ایک سرائے میں ٹھہرا۔ جراح کو لایا جس نے یقین دلایا کہ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔ ایک مہینے میں وہ بالکل صحت یاب ہو گئی۔ اس نے قلم دوات اور کاغذ منگایا۔ ایک رقعہ لکھا اور کہا کہ ”اسے وہاں لے جاؤں جہاں سوداگر جمع ہوتے ہیں اور ماہیار کو دے آؤ“۔ قاسم خط لے کر گیا۔ ماہیار نے خط پڑھ کر دو تھیلیاں اشرفیوں کی اسے تھما دیں۔ لڑکی نے کہا کہ اب کوئی مکان کرائے پر لینا چاہیے۔ کرائے کے مکان میں منتقل ہونے کے بعد اس نے ماہیار کے نام ایک اور رقعہ لکھا۔ اس مرتبہ ماہیار نے اشرفیوں کی چار تھیلیاں پیش کیں۔ اب لڑکی اور قاسم خوب آرام سے رہنے لگے۔ قاسم ایک اور عورت کی محبت میں گرفتار تھا اس لیے لڑکی کی طرف ملتفت نہ ہوا۔ ویسے بھی وہ اس کا بھائی کہلاتا تھا۔ تاہم اسے یہ تجسس ضرور تھا کہ لڑکی کو کس نے اور کیوں زخمی کیا تھا لیکن لڑکی کچھ بتانے پر آمادہ نہ تھی۔

ایک دن اس نے قاسم کو اشرفیاں دے کر کہا۔ ”یہاں نامہران نامی ایک بزاز ہے جس کی دکان میں ایک سے ایک سے ایک نفیس کپڑا موجود ہوتا ہے۔ جاؤ اور اس سے کچھ کپڑا خرید لاؤ مگر بھاؤ تاؤ نہ کرنا، منہ مانگی قیمت دینا۔“ قاسم نامہران کے پاس گیا جو بہت خوبصورت جوان تھا۔ تھوڑی بہت خریداری کی۔ دو دن بعد لڑکی نے پھر اسے نامہران کے پاس جانے کو کہا، نامہران سے دوستی ہو گئی۔ اس نے قاسم سے کہا کہ ”کسی دن میرے ساتھ کھانا کھائیے۔“ جب قاسم نے لڑکی کو یہ بتایا تو وہ بہت خوش ہوئی اور کہا کہ ”ضرور۔ آج تم جاؤ اور کل اسے اپنے گھر مدعو کرو میں سب انتظام کر رکھوں گی۔“ پہلے قاسم نامہران کے گھر گیا، پھر نامہران قاسم کے گھر آیا۔ لڑکی نامہران کے سامنے نہ آئی۔ محفل ناؤ نوش دیر تک گرم رہی۔ رات بہت بیت چکی تھی چنانچہ نامہران وہیں پڑ کر سو گیا۔ قاسم کو بھی نیند آ گئی۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی نے اسے جگایا۔ لڑکی کے ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے میں خنجر تھا۔ وہ کہنے لگی کہ ”اٹھو اور اپنے دغاباز مہمان کو دیکھو کہ اس پر کیا گزری ہے۔“ قاسم نے جا کر دیکھا تو نامہران خون میں لت پت، مرا پڑا تھا۔ اس پر قاسم نے کہا کہ ”ظالم لڑکی، یہ کیا کیا؟“ اب لڑکی نے اپنی کہانی سنائی۔ ”میں اس شہر کے بادشاہ کی لڑکی ہوں میں نامہران پر عاشق ہو گئی تھی۔ ہم دونوں آپس میں ملتے رہتے تھے۔ ایک رات میرا اس سے ملنے کو بڑا دل چاہا۔ میں ایک چور راستے سے اس کے گھر پہنچی تو دیکھا کہ وہ ایک اور خوبصورت لڑکی کے ساتھ گل چھرے اڑا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر میں آگ بگولا ہو گئی۔ میں نے لڑکی کو خوب مارا پیٹا اور نامہران کو بھی برا بھلا کہا اور مارا۔ نامہران نے میرے پاؤں پکڑ لیے، معافی مانگی، سو سو خوشامدیں کیں اور کہا کہ آئندہ ایسی کوئی بات نہ ہوگی۔ میں اس کی باتوں میں آ گئی۔ اس نے مجھے خوب شراب پلائی اور جب میں مدہوش ہو گئی تو مجھ پر چاقو سے کئی وار کیے اور مجھے مردہ سمجھ کر، بورے میں ڈال کر شہر سے باہر ویرانے میں گاڑ آیا۔ ماہیار ایک سوداگر ہے جو شاہی حرم کو مال فراہم کرتا تھا۔ اس لیے اس نے میرے رقعے کا احترام کیا۔ اب کل ہم دونوں بادشاہ کے پاس چلیں گے اور وہ تمھیں انعام و اکرام سے نوازے گا۔ “ابوالقاسم کو یہ منظور نہ تھا اور وہ رات کو شہر سے کھسک گیا۔

اس غیرمعمولی مماثلت کے پیش نظر جو اس قصے اور “باغ و بہار” کے پہلے درویش کی آپ بیتی میں پائی جاتی ہے اس الزام میں کوئی وزن نہیں رہتا کہ ”ہزار و یک روز“ کی کہانیاں پیتی دے لاکروئے نے خود گھڑی تھیں۔ کوئی نہ کوئی فارسی متن اس کے سامنے ضرور ہوگا۔ مخلص درویش کا یہ دعویٰ بھی درست معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مجموعہ ہندوستان میں مروّج قصوں پر مشتمل ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا میر امن کے ”باغ و بہار“ میں شامل تمام کہانیاں ”ہزار و یک روز“ میں موجود ہیں؟ جو حضرات ”باغ و بہار“ پر تحقیقی کام کرنے کے خواہشمند ہوں انھیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔