ایک نیا دفتر کھلا

یہ تحریر 2111 مرتبہ دیکھی گئی

         محمد حسن عسکری اردو کے ان چند خوش قسمت ادیبوں میں سے ہیں جن کی تحریروں کو محفوظ کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ ان کے چاہنے والے بہت ہیں اور سنجیدہ مزاج ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ جو کچھ انہوں نے لکھا وہ سب کا سب ہمارے سامنے کتابی صورت میں آ گیا ہے لیکن قیاس ہے کہ ان کے تحریری سرمائے کے خاصے حصے تک اب رسائی ممکن ہے۔ اس ضمن میں کوششیں جاری رہیں تو عین ممکن ہے کہ نئی چیزیں سامنے آتی رہیں۔

 جس نئی کتاب کا جائزہ لینا مقصود ہے اس کا عنوان ”عسکری کے نام نو دریافت خطوط“ ہے۔ تدوین کا عمل محمد حسن مثنیٰ اور محمد حسن رابع نے انجام دیا ہے۔ افسوس کہ بہت سے خط یقینا ضائع ہو گئے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ منٹو، احمد ندیم قاسمی، احمد علی، فراق گورکھپوری، احتشام حسین، کرشن چندر اور اخترالایمان کے صرف ایک ایک خط مل سکے ہوں۔ محمد حسن مثنیٰ نے” عرضِ حال“ میں لکھا ہے کہ”ہمارے بڑے بھائی محمد حسن عسکری خود اپنی لکھی ہوئی کتابیں، مطبوعہ، غیر مطبوعہ مضامین یا ان کی فوٹو کاپیاں اپنے پاس جمع نہ رکھتے تھے۔“ بہت سے خط اس بے پروائی کی وجہ سے محفوظ نہ رہے ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ 1947سے پہلے کے خطوط عسکری صاحب کہیں چھوڑ آئے ہوں۔ دنیا میں ہزار جھنجھٹ ساتھ لگے رہتے ہیں۔ خطوں کا سنبھالنا کارے دارد ہے۔ احمد ندیم قاسمی سے عسکری صاحب کی مراسلت 1942ءسے شروع ہوئی تھی۔ بعد میں یہ تعلق برقرار نہ رہ سکا۔ قاسمی صاحب نے جو خط لکھے ہوں گے ان میں سے ایک ہی مل سکا۔ قاسمی صاحب کا کہنا تھا کہ ان کے پاس عسکری صاحب کے خطوط موجود ہیں۔ ان خطوط کو انھوں نے شائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور آخر کہا کہ ”ان خطوط کو دیمک کھا گئی۔“

   بہر کیف، اس مجموعے میں سب سے زیادہ خطوط ڈاکٹر حمید اللہ کے ہیں۔ ان کی تعداد45ہے۔ اس کے بعد سہیل احمد خاں کے 19خط ہیں۔ فرانسیسی عالموں میں مشیل والساں (مصطفےٰ عبدالعزیز) کے 24خط ہیں۔ ان کا اردو میں ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ 88خطوط دستیاب نہ ہوتے تو اس مجموعے کی کوئی خاص حیثیت نہ رہتی۔

    کتاب کی ضخامت میں کچھ اضافہ عزیز ابن الحسن کے طویل تعارف سے ہوا ہے جو تقریباً ساٹھ صفحے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسے مختصر کیا جا سکتا تھا۔ تعارفیے کا ایک حصہ بلا شبہ اہم ہے۔ ایسے مکتوب نگاروں کے بارے میںمعلومات فراہم کرنا ضروری تھیں جن کا تعلق فرانس اور فرانسیسی علم و ادب سے ہے۔ ظاہر ہے، ہمارے قارئین، ان سے کم آشنا ہوں گے۔

سب سے زیادہ خطوط ڈاکٹر حمیدا للہ کے ہیں اور سب سے کام کی باتیںانھیں میں ہیں۔خطوں میں بعض مسائل کی طرف اشارے ہی کیے جا سکتے ہیں۔اگر خط بہت طویل ہو تو بجائے خود مضمون کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ کتاب میںکوئی خط اتنا طویل نہیں۔ڈاکٹر حمید اللہ بڑی سہولت سے ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن پر غور کیا جائے تو سینکڑوںصفحے لکھنا ممکن ہے۔ مثلاً یہ بات کہ ”بے دینی ہو یا گم راہی، اس کا مستقل علاج اگر ہو سکتا تو انبیاءعلیہم السلام کر لیتے۔ اس کا علاج ایک نہ ختم ہونے والا جہاد ہے کہ ہر نسل میں ہر شخص کو اپنے ماحول کی حد تک کرنا ہے“ یا ”غالباً ہمارے پیروں مرشدوں کی ریاضت میںwill powerکی ترقی میں ہپنا ٹزم کے عناصر بھی ہوتے ہیں اور اس سے وہ تسخیر قلب کرکے اپنے سے اچھا کام لیتے ہیں یعنی اپنے معمول کی حیثیت اور انانیت کو توڑ کر خدا کی راہ میں لگاتے ہیں۔“

                مشیل والساں کے خط بھی معلومات افزا ہیں۔ ان کی زبانی پتا چلتا ہے کہ فریتجوف شوآں اور مارٹن لنگز دونوں رینے گینوں سے اختلاف رکھتے تھے اور والساں سے بھی خوش نہ تھے۔ عسکری صاحب سے یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ”آپ نے مجھے گینوں کا خلیفہ قرار دیا ہے۔ گینوں نے کسی کو خلافت نہیں دی۔“ اس طرح کی بات عسکری صاحب سے غیر متوقع نہیں کیوں کہ ان کے مزاج میں ضرورت سے زیادہ تحسین و تنقیص کا عنصر شروع سے موجود رہا ہے۔

                عزیز ابن الحسن نے اس پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ محمد عمر میمن، شمس الرحمن فاروقی اور سہیل احمد خاں نے عسکری صاحب سے ارادت مندی کے بعد مذہبی و عرفانی معاملات میں جو دل چسپی ظاہر کی وہ کوئی پُرمایہ صورت اختیار نہ کر سکی۔ یہ شاید مشکل کام تھا اور ترجیحات اور مطالعے کو بڑی حد تک بدلنے کا تقاضا کرتا تھا۔ خود عسکری صاحب بھی نہ رہے جو انھیں اکساتے اور راہ دکھاتے۔

                ایک جگہ عزیزابن الحسن لکھتے ہیں کہ جب اجمل صاحب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو انھوں نے عسکری صاحب کو انگریزی شعبے کا صدر بننے کی دعوت دی۔ عسکری صاحب نے اعتنا نہ کیا۔ اسے موصوف نے عسکری صاحب کی ”بے نفسی و بے غرضی“ قرار دیا ہے حالاں کہ یہ عین دانش مندی تھی۔ اجمل صاحب کی موجودگی میں تو عسکری صاحب کو شاید کوئی نہ چھیڑتا۔ لیکن اجمل صاحب کب تک وی سی رہتے اور ان کے جانے کے بعد عسکری صاحب کو کس طرح تنگ کیا جاتا، اس کے لیے تخیل سے مدد لینے کی ضرورت نہیں۔ حیرت ہے کہ عزیز ابن الحسن خود تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں اور پھر بھی ان کی گھٹیا سیاست اور سازشی فضا سے بے خبر ہیں۔

                رشید چودھری کا ایک ہی خط ہے۔ اس کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ پہلی دفعہ معلوم ہوتا ہے کہ عسکری صاحب نے بالزاک کی ”ڈرول سٹوریز“ کا ترجمہ بھی کیا تھا۔ خدا جانے وہ ترجمہ کہاں گیا۔

                ایک دلچسپ بحث ان خطوں میں اگرتھا کے محل وقوع اور معنویت پر ہے۔ اس موضوع پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اگرتھا بھی شاید جابلقا اور جابلسا کی طرح کوئی روحانی شہر ہے۔ اس تک پہنچنے کا راستہ تبت میںکہیں ہے یا منگولیا میں، اس بارے میںکچھ علم نہیں۔ بہت عرصے سے اس موضوع پر بھی خیال آرائی ہو رہی ہے کہ زیرزمین ایک اور دنیا موجود ہے اور یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس میں جھوٹ سچ کے مابین کوئی لکیر کھینچنا مشکل ہے۔

عسکری کے نام نودریافت شدہ خطوط؛

ناشر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 496؛ بارہ سو روپیے