ایک صاحبِ کشف

یہ تحریر 2274 مرتبہ دیکھی گئی

دنیا کا وہ وسیع و عریض خطہ، جو اب شمال امریکہ کے نام سے موسوم ہے، کبھی اُن لوگوں کی ملکیت تھا جنھیں غلطی سے انڈین(1) کہا جانے لگا۔ کسی لفظ کے غلط استعمال کی اس مثال کا جواب نہیں۔ جب یورپی اقوام بحرِ اوقیانوس کی دوسری جانب سے دریافت کرنے، زبردستی قبضہ جمانے اور استیصال کا ایجنڈا لے کر شمالی امریکہ پہنچیں تو ان اصل باشندوں یا قدیم زادوں کی درگت بننے کا آغاز ہوا۔

یہ قدیم زاد، جو کبھی شمالی امریکہ کے ممالک تھے، اب محض محروم الارث اقلیت ہیں۔ اُنھیں یا تو مخصوص علاقوں تک محدود کر دیا گیا ہے، جیسے مویشیوں کو باڑے میں رکھا جاتا ہے یا وہ ایک پیچیدہ سماجی نظام کے پیدا کردہ دباؤ ڈالنے والے تقاضوں سے پِس اور کچل کر رہ گئے ہیں۔ یہ سماجی نظام اُن کی شناخت ار امنگوں کو بالکل خاطر میں نہیں لاتا۔ انڈینز کے صرف چند ایک روایت دوست اور قدامت پسند گروہ ایسے بچے ہیں جنھیں تاحال جینے کے قدیم قرینوں کے اصل جوہر کا قرب حاصل ہے۔ ان اڑیل گروہوں کو عظیم تر امریکہ معاشرہ دقیانوسی اور عہد حاضر میں خواہ مخواہ موجود سمجھتا ہے۔ گویا وہ جدید دنیا میں زندہ رہنے کا بالکل کوئی جواز نہیں رکھتے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ امریکہ میں اب ایسے لوگ بھی ہیں، بے شک ان کی تعداد بہت کم ہے، جنھیں اس بارے میں سخت تشویش لاحق ہے کہ انتہائی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اپنے جلو میں نہ صرف ماحولیاتی بحران لے کر آئی ہے، بلکہ خود انسانوں کو انسانی اوصاف سے محروم کر رہی ہے۔ ان لوگوں کی سمجھ میں آ چلا ہے کہ زندگی گزارنے کے انڈین طور طریقوں میں بھی شاید کچھ اچھائیاں پائی جاتی ہوں۔

یہ ماضی میں کیے گئے مذموم افعال کا کفارہ ادا کرنے کا ایک انداز ہے۔ اینگلو سفید فام نو آباد کار انڈینز سے جو نسلی تعصب رکھتے تھے، اسے ایسا دماغی خلل ہی قرار دیا جا سکتا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے رہ نما مقولے کا پرچار کرنا کہ “اچھا انڈین وہی جو مرا ہوا ہو” لامحالہ نسل کشی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ وسطی اور جنوبی امریکہ کو فتح کرنے والے ہسپانوی اور پرتگالی بھی ظالم اور غاصب تھے اور مفتوحین کو عیسائی بنانے کے جوش میں اندھے ہو جاتے تھے لیکن ان میں نسلی تعصب کم تھا۔ شروع ہی سے وہ قانونی طور پر انڈینز سے شادیاں کرنے لگے اور انھوں نے میس تیزو (2) نام کی ایک نئی نسل کو جنم دیا۔ فرانسیسیوں نے بھی کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انڈینز میں شادیاں کیں۔ صرف اینگلو پروٹیسٹنٹ ایسے تھے جو سفاک بھی تھے اور خود ساختہ حجابوں کے مارے ہوئے بھی اور غلوآمیز حد تک پاک صاف رہنے کے قائل تھے۔ اُنھیں نسلی آلودگی کے تصور سے وحشت ہوتی تھی۔ وہی تھے جنھوں نے انڈینز کا قلع قمع کرنا ضروری سمجھا، انڈینز کو بہائم جیسا قرار دیا گیا۔ پورے پورے قبائل کا قتلِ عام غیرمعمولی بات نہ ٹھیری۔ انڈینز کے ساتھ جو واثق معاہدے کیے جاتے، انیں، جب ایسا کرنا سودمند معلوم ہوتا؛ بالائے طاق رکھ دیا جاتا۔ کتنے ہی قبائل تھے جنھیں بے دخل کرکے جلا وطن کر دیا گیا اور ان کی زمینیں ہتھیا لی گئیں۔

جرائم کی یہ فہرست اتنی لمبی اور اس قدر تکلیف دہ ہے کہ اسے تفصیل سےبیان کرنا ممکن نہیں۔ انڈینز کے صبر اور اخلاقی سربلندی کے بارے میں جو کہا یا لکھا جائے، کم ہے۔ اُنھوں نے اپنے مہذب سفید فام بھائیوں کے غارت گرانہ کرتوت کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنی منفرد بصیرت پر آنچ نہ آنے دی۔ اپنی ہر کاوش میں، روایتی طریقوں کی پاس داری کرتے ہوئے، اُنھوں نے صدیوں تک ایک پُربصیرت صفا کو قائم رکھا ہے۔ اُن کی وضع داری سے متاثر ہونا ہی پڑتا ہے۔ یہاں ہمیں ہندو یا یونانی اساطیر اور انڈین اساطیر میں فرق صاف نظر آتا ہے۔ ہندو اساطیر کسی ضرورت سے زیادہ گنجان دیواری تصویر سے مشابہ ہیں جس میں آدمی بری آسانی سے، حیران ہو کر، گم ہو سکتا ہے۔ ایسی آسمانی ضیافت جو کسی خوش خوراک کی بجائے بسیار خور کے لیے زیادہ موزوں ہو۔ یونانی اساطیر مختلف رویوں اور پہلوؤں کی ازسرِ نو قدر و قیمت متعین کرنے سے عبارت ہیں لیکن کہیں کم پُرپیچ ہیں۔ ان کے برعکس انڈینز کی اساطیر اور مذہبی عقائد اثرانگیز طور پر سادہ، واضح اور راست ہیں۔ ان اسطوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے اُنھیں ابھی ابھی آوے سے نکالا گیا ہو، جیسے وہ نئی نئی ورثے میں ملی ہوں، جیسے ان کا تعلق انسانیت کے بچپن سے ہو۔

بلیک ایلک (3) ایک کہن سال سُو (Sioux) اس ستم رسیدہ اقلیت سے تعلق رکھتا ہے۔ سُو ایک شمال امریکی انڈین قبیلہ ہے۔ جوزیف ایپس براؤن (4) نے ارگ لالاسُو (5) کے ان سات مناسک کا احوال قلم بند کیا ہے جو بلیک ایلک نے بیان کیے تھے۔ براؤن؛ پریری (6) میں آباد متعدد انڈین قبائل کے درمیان گھوما پھرا تھا۔ اسی سیاحت کے دوران میں اس کی بلیک ایلک سے ملاقات ہوئی جس کی عمر اَسّی اور نوے کے درمیان کہیں تھی۔ وہ جزوی طور پر اپاہج اور قریب قریب نابینا ہو چکا تھا۔ بلیک ایلک نے براؤن سے کہا کہ وہ اپنے قدیم دین کی جو باتیں سنائے، اُنھیں قلم بند کر لیا جائے۔

بلیک ایلک 1862ء میں پیدا ہوا تھا، اس لیے اُن پرانے وقتوں سے واقف تھا جب اُس کے قبیلے کے لوگ میدانوں میں آزادانہ رہتے تھے اور بائسن (7) کا شکار کھیلتے تھے۔ وہ گوروں سے لتل بِگ ہارن (8) اور وونڈیڈنی کریک (9) کے معرکوں میں لڑ چکا تھا۔ نوجوانی میں اُسے دوسرے اہلِ بصیرت نے قبیلے کی لوک ریت سکھائی۔ ایلک ہیڈنامی ایک شخص، جس کی تحویل میں مقدس پائپ رہتا تھا؛ بطورِ معلم خاص طور پر پیش پیش تھا۔ عبادت کرکے، روزے رکھ کے اور اپنے ورثے کی عمیق تر سوجھ بوجھ سے بہرہ مند ہو کر بلیک ایلک آخرکار خود ایک سیانا بن گیا۔ اُس پر بہت سے الہامی مناظر کا نزول بھی ہوا لیکن وہ کبھی نہ جان سکا کہ لفظوں پر مشتمل ان مناظر کو عملی جامہ کیسے پہنائے، کس طرح اپنی قوم کے پھولنے پھلنے والے درخت کو ازسرِ نو زندہ کرے، کسی نقطے پر آ کر وہ تار، جو تسلسل کو قائم رکھتا تھا؛ ٹوٹ گیا تھا اور بلیک ایلک کو معلوم نہ تھا کہ کہ کہاں سے ٹوٹا ہے۔ وہ 1950ء میں فوت ہوا۔

بلیک ایلک کی تعلیمات میں بہت کچھ ایسا ہے جو جانا پہچانا معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر وحدانیت کا وہ تصور، جس میں کسی قسم کے سمجھوتے کی گنجائش نہ تھی، جو سو قبیلے کے روحانی ورثے میں قلب کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر سچا دین ایک واحد اور سب سے اعلیٰ اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ سُو اس سب سے بڑی ہستی کو “وکان تانکا” کا نام دیتے تھے۔ بقول بلیک ایلک: “ہم انڈین حقیقی اور واحد خدا کو مانتے ہیں اور ہر وقت اُس کی عبادت کرتے ہیں”۔ وہ مزید کہتا ہے کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ تمام جان دار اور تمام اشیاء، مختلف انداز سے ہر وقت اس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں”۔ اُس کا یہ بھی کہنا ہے : “۔۔۔ کائنات کی تمام خلق کی ہوئی اشیا یا جان داروں میں صرف دو ٹنگے آدمی کو یہ مقام حاصل ہے کہ اگر وہ خود کو پاک صاف کر لے اور خاک ساری کا ثبوت دے تو شاید وکان تانکا سے واقف یا واصل ہو جائے”۔ ایک اور جگہ وہ کہتا ہے کہ “صرف جاہل آدمی کو وہاں بہت سے (کثرت) نظر آتے ہیں جہاں حقیقت میں صرف ایک (وحدت) ہے۔” یہ بھی ایک جانا پہچانا سرّی عقیدہ ہے۔

تمام سرّی تعلیمات دنیوی چیزوں سے غیر صحت مندانہ لگاؤ اور مادہ پرستانہ اندازِ فکرع کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس مسئلے پر سُو لوگوں کا موقف، جس کی وضاحت بلیک ایلک نے کر دی ہے؛ ذرا بھی مختلف نہیں۔ وہ کہتا ہے: “جو شخص بھی حواس اور اس دنیا کی چیزوں سے وابستہ ہے، وہ اپنی زندگی جہالت میں بسر کرتا ہے اور اس کو سانپ کھاتے رہتے ہیں جو اس کی شدید خواہشوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔” رات، گوشت اور کالا رنگ بھی جہل کی علامت ہے۔ اس سے یہ پوچھنا دل چسپی سے خالی نہ ہوتا کہ اگر کالا رنگ جہالت کی نمائندگی کرتا ہے تو بلیک ایلک کے نام سے کیوں معروف تھا؟ شاید سیاہی صرف اپنے غیر نامیاتی روپ میں جہالت کی علامت بنتی ہوگی۔

جو لوگ الہامی مناظر دیکھنے کے متمنی ہوتے، انھیں گریہ و زاری اور نوحہ کرنا پڑتا تھا اور بلیک ایلک کے بقول: پرانے وقتوں میں کیا مرد اور کیا عورتیں، سب گریہ و زاری کرتے تھے۔ اس سیاق و سباق میں گریہ و زاری کو صرف ایک خاص قسم کی عبادت یا روحانی مجاہدہ سمجھا جا سکتا ہے، کیوں کہ جو آدمی گریہ و زاری کرنا چاہتا ہے، اُس پر کسی مقدس ہستی سے مشورہ اور مدد لینا ضروری تھا، تاکہ ہر عمل صحیح طور پر ادا ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اگر معاملات کو درست طور پر انجام نہ دیا جائے تو کوئی بڑی خرابی واقع ہو سکتی ہے، حتیٰ کہ کوئی سانپ آ کر نوحہ کرنے والے کو لپٹ بھی سکتا ہے۔

مندرجہ ذیل اقوال اور زیادہ حیران کن ہیں: “زمین، جو خدا نے تمھیں عطا کی ہے؛ سرخ ہے اور زمین پر بسنے والے دو ٹنگے بھی سرخ ہیں اور روحِ اعظم نے تمھیں ایک سرخ دن ا ور سرخ راستے سے بھی نوازا ہے۔” یہاں شاید یہ ذکر کرنا چاہیے کہ آدم کے معنی “سرخ مٹی” بھی ہیں؛ سرخ دن سے روزِ محشر مراد ہو سکتا ہے اور سُو لوگوں کے نزدیک سرخ راستہ وہ ہے جو جنوب اور شمال کو آپس میں ملاتا ہے اور اچھا یا سیدھا راستہ ہے، کیوں کہ سُو عقائد میں شمال پاکیزگی ہے اور جنوب زندگی کا منبع ہے۔ نیلا یا کالا راستہ، جو مشرق اور مغرب کو آپس میں ملاتا ہے؛ گم راہی اور تباہی کا راستہ ہے۔

سُو قبیلے کے پاس سیمرغ تک کا ایک صحیح صحیح   مثیل موجود ہے جو “واکن یان تانکا” کہلاتا ہے۔ یہ بادلوں کی طرح گرجنے والا پرندہ مغرب میں دنیا کے کنارے ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع چھوٹے سے مکان میں بسیرا کرتا ہے۔ وہ بہت سوں پر مشتمل ہے لیکن وہ سب اصل میں ایک ہیں۔

بلیک ایلک نے جن تعلیمات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، ان میں سے بہت سی اور مقدس پائپ بھی (جو ایک طرح کا مقدس تبرک ہے) ایک پُراسرار اور حسین عورت کی دین ہیں جو مدتوں پہلے سُو قبیلے کے پاس آئی تھی۔ اسے قطعی طور پر کوئی الوہی ہستی سمجھنا ہوگا۔ اس نے اُنھیں بتایا تھا کہ جب تک مناسک کا علم موجود اور پائپ استعمال میں آتا رہے گا، اس وقت تک سُو زندہ رہیں گے، لیکن جوں ہی مقدس پائپ کو بھلا دیا جائے گا، لوگ اپنے مرکز سے محروم ہو کر مرکھپ جائیں گے۔ دنیا کے ختم ہونے سے پہلے وہ پُراسرار عورت پھر ظاہر ہوگی۔ انڈینز کے خیال میں دنیا کے خاتمے میں اب زیادہ دیر نہیں۔ سُو قبیلے کا ایمان ہے کہ جب دنیا کے آخری دن قریب آ جائیں گے تو چاند سرخ اور سورج نیلا نظر آنے لگے گا۔ انگریزی محاورے میں نیلے چاند سے کوئی شاذ و نادر وقوعہ مراد ہوتا ہے، تو شاید کبھی نیلا سورج نظر آنے پر دنیا کے پرخچے اڑیں گے۔

حواشی:

1۔ یہ Black Elk Speaks نامی کتاب پر تبصرہ ہے جو تقریباً تیس سال پہلے “پاکستان ٹائمز” میں شائع ہو اتھا۔کولمبس ہندوستان کے لیے نیا بحری راستہ تلاش کرنے نکلا تھا۔ جب وہ وسطی امریکہ کے قریب واقع جزیروں میں وارد ہوا تو سمجھا کہ ہندوستان پہنچ گیا۔ اس خیال سے مقامی باشندوں کو انڈین قرار دیا۔ اُس وقت سے شمالی اور جنوبی امریکہ کے قدیم باشندوں کے لیے یہ نام رائج ہو گیا۔ مضمون میں اسی لفظ کو، بطور واحد اور جمع، برقرار رکھا گیا ہے۔

2۔ Mestizo: دوغلا۔ جنوبی امریکہ، ہسپتانیہ اور فلپائن میں ایسا فرد جو یورپی اور مقامی اقوام کے ملاپ سے پیدا ہوا ہو۔

3۔ بلیک ایلک کا ترجمہ “سیاہ گوزن” کیا جا سکتا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ ایلک واقعی گوزن ہے یاکچھ اور۔

4۔ جوزیف ایپس براؤن (1920۔2000ء)۔ امریکہ کے اصل باشندوں کی روایات اور عالمی مذاہب کا معروف محقق، مصنف اور معلم۔

5۔ سُو قبیلے کی ایک شاخ۔

6۔ گھاس کے وسیع و عرض میدان جو وسطی شمالی امریکہ میں واقع ہیں۔

7۔ Bison۔ ایک طرح کا بھینسا جو کبھی وسطی شمالی امریکہ کے میدانوں میں کثرت سے پایا جاتا تھا۔

8۔ Little Bighorn۔ اس مقام پر 1876ء میں جو لڑائی ہوئی۔ اس میں انڈینز نے ایک امریکی گھڑ سوار ارجمنٹ کو شکست دی۔

9۔ Wounded Knee Creek۔ یہاں 1890ء میں ایک امریکی رجمنٹ نے ایک جھڑپ میں تقریباً ڈیڑھ دو سو انڈین مردوں، عورتوں اور بچوں کو مار ڈالا تھا۔