ایران میں علامہ اقبال رح

یہ تحریر 3370 مرتبہ دیکھی گئی

علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں کبھی ایران کا دورہ نہیں کیا تھا  لیکن ایرانی علامہ اقبال سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔

دو سال قبل ایران جانا ہوا۔ کسی بھی شہر میں ایرانی ہمارے شہر کے بارے میں دریافت کرتے ۔ہم بغیر سوچے ہی لاہور کا نام بتلا دیتے تھے ۔ وہ اس لیے کہ ایران میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی مناسبت سے لاہور کو ادبی شہر جانا جاتا ہے۔

ایران کا کوئی ایک بھی ایسا بڑا شہر نہیں ہے جہاں علامہ اقبال سے منسوب کسی چوک یا کالونی کا نام نہ ہو کیونکہ علامہ اقبال نے کل بارہ ہزاراشعارکہے ہیں جن میں سے سات ہزارفارسی میں ہیں

فارسی مجموعہ زبورِ عجم کے نام سے 1927میں   شائع بھی ہوا۔

۔دو سال  قبل مشہد مقدس  میں تھے  وہاں بھی ایک کالونی( سیکٹر) اور ایک روڈ علامہ اقبال کے نام پر دیکھی۔۔

روڈ کے ساتھ چوک میں علامہ اقبال کا مسجمہ بھی نصب کیا گیا تھا ۔

قم المقدس میں عالمی “تقریب لائبریری” کا وزٹ کیا ۔لائبریری میں ہزاروں کتابیں موجود تھیں جو ادارے نے خود شائع کی تھیں مجھے کتابوں کے ڈھیر میں دو کتابیں نظر آئیں جن پہ لکھا تھا “اقبال لاہوری”۔

ایرانی علامہ اقبال کو لاہور شہر کی نسبت سے لاہوری ہی لکھتے اور کہتے ہیں۔

قم المقدس  میں  پاکستانی دوست تصور کے ساتھ قم کا پیزا کھانے کا موڈ بنا تو تلاش میں نکل پڑے۔ چلتے چلتے خیابان مرعشی نجفی میں گلی کے کونے میں ایک لائبریری نظر آئی جس پہ بڑے حروف میں لکھا ہوا تھا “علامہ اقبال لائبریری “

۔دوست نے بتایا کہ یہ لائبریری علامہ اقبال سے منسوب ہے یہاں پاکستانی طلبہ کے ساتھ ساتھ ایرانی طلبہ بھی آتے رہتے ہیں

۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے ایک ایرانی شہری جب پاکستان گیا تو علامہ اقبال کی فارسی شاعری پہ تحقیق کر رہا تھا

 ایران واپس آکر اپنے تحقیقی مواد کے ساتھ یہ لائبریری قائم کی ۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ،علامہ اقبال کو اپنا مرشد ہونے کا برملا اظہار کرچکے ہیں

ایرانیوں سے مخاطب علامہ اقبال نے اپنی فارسی مجموعہ میں امام خمینی رح کی آمد کی پیشن گوئی اس شعر میں کی ہے

 می رسد مردے کہ زنجیر غلامان بشکند

دیدہ  ام  از  روزن  دیوار  زندان  شما

یعنی میں نے زندان کی سلاخوں کے پیچھے سے دیکھا ھے کہ ایک مرد آ رہا ھے جو تمھیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرائے گا۔