اداسی میں لکھے خط کا دوسرا حصہ

یہ تحریر 2099 مرتبہ دیکھی گئی

پیاری دوست۔۔۔

چمگاڈر کی مثال پرندوں میں “فضول اور بے فائدہ پرندہ” کے طور دی جاتی تھی آفت یہ پڑی کہ اسی چمگادڑ نے دنیا بھر کے انسانوں کو اپنی جیسی عادات جیسا کہ بے مقصد زندگی ،رات بھر جاگنا یا دن بھر سونا سے مزین کردیا ہے۔

 وبا سے قبل دنیا بھر کے انسان اپنے امور میں اس قدر مگن تھے کہ موت کو فراموش کرچکے تھے ۔زندہ رہ جانے والے انسان سمجھتے ہیں کہ مرنا شاید ان ہی افراد کو تھا جو دنیا سے گزر چکے اور ہم سرمدی زندگی پاچکے۔

اسی کیفیت میں مبتلا انسانیت کو وباء جیسے دیو کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔اور اب

ہر لمحہ موت کا خوف طاری ہے۔

 کچھ روز قبل ایک دوست نے حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اسے دو دن چھینکیں اور زکام کے باعث کورونا کی آمد کا احساس ہوا تو وصیت لکھ دی ہے کیا معلوم کب کورونا  کا نوالہ بنا لے۔ویسے یہ صورتحال پانچ میں سے ایک فرد کی ضرور ہے بالکل ویسے ہی جیسے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ یہودی سازش ہے کوئی کورونا ورونا نہیں ہے۔

اچھا جیسا کہ گزشتہ خط میں بھی ذکر کیا تھا کہ وباء پہلی یا آخری بار نہیں آئی مرزا غالب کے زمانہ بھی اس عذاب نے جنم لیا تھا ۔آج  افسانہ نگار قرة العین حیدر  کا وباء بارے افسانہ کی چند سطروں کو یہاں نقل کرتا ہوں:

 “سنا ہے بڑی سخت وبا پھیلی ہے۔

 ہاں۔ وبا پھیلی ہے اور لوگ مرتے ہیں۔

 اگر نہ مریں تو دنیا کی آبادی اور بڑھ جائے اور مزید گڑ بڑ پھیلے۔

پہلے ہی کیا کم گڑ بڑ ہے؟

خدا سے امید ہے پچاس لاکھ تومر ہی جائیں گے۔

 اتنے بہت سے؟

 تب بھی کمی نہیں آئے گی، دنیا بھری پڑی ہے۔

خصوصاً ایشیا۔  زیادہ تر ان لوگوں کو مرنا چاہئے جو بالکل بے کار ہیں۔

جانم

 یہ تو تھا قرة العین حیدر کا کئی سال قبل افسانے کا ذکر اب تمہیں اپنا حال بتلاتا ہوں۔

گاوں والے گھر کا عالم یہ ہے کہ یہاں میرے والدِ محترم ضعف اور بیماری کے باعث کئی سالوں سے چارپائی پر گھنٹوں خاموشی سے بے سدھ سوئے رہتے ہیں۔

 پہلے بازار یا گلی کو ہولیتے تھے لیکن کورونا کے لاک ڈاون نے اس خوش کُن لمحہ سے بھی محروم رکھا ہے۔ گھر تک محدود رہنے اور بے بسی کے عالم کا دکھ کا اندازہ اسی منظر سے کرتا رہتا ہوں۔ ہاں جب وہ سگریٹ کے دھوویں کے دوران قہقہے بلند کرتے ہیں تو زندگی مسکراتی ہے۔

 پریشان کُن لمحات میں شکر گزاری کا یہ لمحہ جب والدین کی خدمت کا موقع ملتا ہے بہت سکون دیتا ہے۔

شام کا منظر بہت دلفریب ہوتا ہے شام سے قبل چھتیں آباد ہوجاتی ہیں اور پھر عزیز و اقارب اپنی چھتوں پہ بلند ہوتے ہیں ۔ایک دوسرے کا حال لیتے ہیں اور پھر سے مقید ہوجاتے ہیں ۔

عرش و فرش کیا فارسی کی کہاوت بدل رہی ہے ۔کہاوت ہے کہ   عاشق کے لیے چبارہ ہی کافی ہے “اب بدل کر کورونا سے خوف ذدہ لوگوں کی انجوائنٹ کے لیے چھتیں ہی کافی ہیں” بن چکی ہے “۔

وقت ہے کہ ایک جیسے شب و روز میں گزر رہا ہے کیا آج  اتوار ہے؟ تم کہاں تھے ؟اور کہاں ہو؟ جیسے سوال بہت غیر ضروری ہوچکے ہیں۔

جاناں

زمین والوں کے پاس فرصت لمحات کچھ زیادہ ہیں اور وہ آسمان کے بارے غور وفکر معمول سے زیادہ کرنے لگے ہیں آسمان بدلتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی فضاء خوشگوار محسوس کرتے ہیں ۔

گھروں میں مقید انسان فطرت کے ساتھ ساتھ اپنوں کے قریب ہورہا ہے ۔

عمومی طور پر گاوں سے شہروں کی طرف جانے والے اپنے گاوں میں کھویا ہوا بچپن بڑھاپے میں تلاش کرتے ہیں لیکن  ہمیں قبل از وقت عین جوانی کے عالم میں یہ فرصت بھی مل گئی ہے۔

تمام تر اداسیوں اور تنہائیوں میں تمہاری یاد میرے ساتھ ہے ۔

 چائے کی میز پہ جلد ملاقات کا امیدوار۔

توقیر کھرل