مجھے ضمیر اختر نقوی سے پیار کیوں ہے؟

یہ تحریر 2348 مرتبہ دیکھی گئی

فلاں شاعر شرابی ہے بھنگی ہے عورتوں پہ دل پھینک ہے لیکن اچھا تخلیق کار ہے ہمیں اس سے کیا ہے کہ وہ جیسا بھی ہے بھئی اس کے افسانے اس کی شاعری کمال ہے

ہمیں اس کی شاعری سے غرض ہے کسی مسجد کا پیش امام تھوڑی نہ لگوانا ہے

کردار کی بات کی جاوے تو یمن کے بچوں پہ ظلم ڈھانے والے انہیں ہر گھنٹے  قحط سے مارنے والے خانہ خدا کے محافظ ہیں ۔۔۔

اچھا آجکل ایک اور معروف ناول نگار اور شاعر جن کا ہندوستان اور پاکستان میں بڑا نام ہے بڑے غصے والے بڑی لمبی زبان والے ہیں کوئی بھی چھوٹا شاعر ان سے گالیاں سنے بغیر بڑا شاعر یا ادیب نہیں بن سکتا ۔

ایک طرف اس کو گالیاں دینے سے رُکتے بھی نہیں ساتھ ہی ساتھ چوری چپکے اس کی کوٹھی والے ناول بھی پڑھتے ہیں اور لمبا سانس لیکر اعتراف بھی کرتے ہیں میاں جو بھی ہے اُس کی شاعری کمال ہے وہ شاعر اچھا ہے۔

 اور موصوف خود ہی تو کہتے ہیں اچھا تخلیق کار ہی اچھا ناقد ہوسکتا ہے ہم بھلا کس کھیت کی مولی یا گاجر ٹھہرے کہ ایک شعر تو ڈھنگ سے لکھ نہ پائے ایک اچھی لائن کھینچ نہ پائے اور چلے ہیں تنقید کرنے ۔۔۔

اب بات کرتے ہیں ضمیر اختر نقوی کی۔

ان کی اُتنی ہی عمر ہے جتنی پاکستان میں مرثیہ میں جدت کی ۔بر صغیر میں مرثیہ نگاری کا سفر آغاز سے اب تلک جس شخص نے دیکھا بلکہ جس کی آنکھوں کے سامنا یہ سلسلہ بام عروج پہ پہنچا وہ ضمیر اختر نقوی ہی ہیں۔

آپ بھلا اُن کی ممبر پہ بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں سُن کر لطف اندوز ہوتے ہوں اب کورونا کے تدارک  بارے اُن کا دعوی سن کا مزاق اڑاتے ہوں لیکن اور کچھ نہیں تو اُن سے یہ دل آوری اور باتیں کرنے ہی سیکھ لیجئیے یہ بھی تو ایک فن ہے

 اور رہی بات کہ مجھے آخر کیوں ضمیر اختر نقوی پسند ہیں تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ان کا مرثیہ نگاری میں کام بہت زیادہ ہے جس کا مجھے اعتراف ہے اس کی بڑی وجہ میری مرثیہ میں دلچسپی ہے۔

ضمیر اختر نقوی نےتاریخِ مرثیہ نگاری ترتیب دی ہے۔ اور بیس ہزار صفحات کی  سترہ جلدیں مختلف ادوار اور موضوعات پہ مبنی ہیں اس میں تمام زبانوں کے مرثیے شامل ہیں۔ پہلی جلد عربی مرثیہ نگاروں پر ہے۔

 شبلی نعمانی نے موازنہ انیس و دبیر میں لکھا کہ عرب میں امام حسین پر مرثیے نہیں لکھے گئے۔ تو ضمیر اختر نقوی نے غلط ثابت کرتے ہوئے بتایا کہ ہزاروں کی تعداد میں مرثیے لکھے گئے۔ ایران کے آیت اللہ عبدالعزیز طباطبائی مرحوم کی عنایت کردہ شعرائے طف کے نام سے عربی مرثیے کی آٹھ جلدیں اس میں شامل ہیں.

  مرثیہ نگاری میں ایک منفرد اور خاص کام  اردو میں سامنے آیا ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ یہ تو ہوگا۔