اداسی بھرا خط

یہ تحریر 2677 مرتبہ دیکھی گئی

اس خط کی کہانی  کے کردار اور احوال فرضی ہیں اس تحریر کا مقصد لاک ڈاون کے دوران گزرتے دنوں کو تحریری شکل میں فکشن کی شکل میں منظر عام میں لانا ہے ۔یہ تحریر قسط وار ہوگی پہلی قسط پیش خدمت ہے

پیاری دوست

خود ساختہ تنہائی میں مقید بقاء کی جنگ لڑنے والے ایک انسان کا سلام پہنچے۔

اب کی بار گاوں میں کسی فوتگی ،عید یا تہوار کے لیے نہیں بلکہ وباء کی دہشت کے باعث آیا ہوں ۔اس ہولناک وباء نے  گاوں والے گھر میں مقید کیا ہوا ہے۔ تم سے دور ہوں گویا زندگی سے دور۔۔۔

اب کی بار سیلاب زلزلہ اورطوفان نہیں ایک وبا نے انسانوں کی موت پہ رقص کیا ہے ۔ہاں وباء آئی ہے بھوک سے نہیں انسانوں سے۔۔

 ایسی وبا کے انسان انسان سے وحشت ذدہ ہے جانوروں سے نہیں ۔

زمین پر چار سُو قحط تو ہے بھوک افلاس کا نہیں لمس کا  ہے۔

کتنے دن ہوئے تمہارے ہاتھوں کا لمس اپنے وجود میں نہیں اتارا۔ یاد ہے جب ادریس بابر کی نظم دہراتے  ہم انگلیاں ملاتے تھے اور زندگی کے ہونے کا احساس لیتے تھے۔۔۔اب سب خواب ہوا ۔۔۔

لمس کی دوری تو ہے لیکن احساس باقی ہے۔ ایک سچے عاشق کے لیے ایمان نہیں عشق امتحان ہوا کرتا ہے آزمائش میں فقط عشق رہ جاتا ہے ایمان کب بدل جائے معلوم نہیں۔۔۔

سنو جاناں اس وباء میں ایک وائرس نے تباہی مچائی ہے۔ انسان کُش وباء جوانوں کی نہیں بوڑھوں کی دشمن بنی ہوئی ہے اسی باعث موت کے منتظر بوڑھوں میں اب حیات کی بقاء کا خوف بڑھ چکا ہے۔

ہر طرف منحوس وباء نے موت کی خبریں ہی پھیلائی ہیں میرے دیس کے لوگ اب ووٹوں کی گنتی نہیں انسانوں کے مرجانے کی خبر لیتے ہیں ۔

 اخبار کی سرخیاں روز بروز سیاہ اور زندگی تاریکیوں میں کہیں گُم ہوتی نظر آتی ہے۔

اِن دنوں مسکرانا کسی گاوں میں سوگ میں خوشیوں کے شادیانے کے طور اداس ہونا لگتا ہے۔

ہاں کبھی کبھی تمہاری یاد ہوا بہار کے طور آتی ہے اور مجھے پھر سے زندگی کا احساس دلاتی ہے۔میں بھی نا کتنا اداس ہوگیا ہوں ۔شاید قہقہے لگانا بھول چکا ہوں ۔ اچھا یہ قحط کوئی پہلی یا آخری بار نہیں آیا۔ مرزا غالب کے زمانے میں بھی تو آیا تھا جو وبا ء کے دنوں میں بھی مسکرانا نہ بھولے تھے۔۔ہوا یوں کہ

ایک دفعہ دہلی میں وبا پھیلی ۔ میر مہدی مجروحؔ نے جو مرزا صاحب کے شاگردوں میں سے تھے، مرزا صاحب سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ’’وباشہر سے دفع ہوئی یا ابھی تک موجود ہے ؟‘‘ مرزا صاحب جواب میں لکھتے ہیں۔ بھئی کیسی وبا ؟ جب مجھ جیسے چھیا سٹھ برس کے بڈھے اور چوسٹھ برس کی بیوی  کو نہ مارسکی توتف برایں وبا۔‘‘

یہ تو مرزا غالب کا حال ہوا اب میں تمہیں کچھ اپنے بارے بتاتا ہوں ۔۔

پیاری

وبا کے دن ہیں اور بڑے کڑےدن

  اپنےگاوں میں موت کے سایے میں زندگی کی تلاش میں ہوں

میرا اساطیری گاوں تلمبہ ہے

جو ہر جنگ جدال اور وبا میں اجڑا ہے۔

اور ہر ظالم کے ظلم کا شکار بھی ہوا ۔

میرے دل  کی جھیل میں  اداسی کے ڈیرے ہیں

ممکن ہو تو چلی آو

گاوں میں دور کہیں

کسی پیڑ کے نیچے بیٹھ کر

ادھوری کہانیاں مکمل کرتے ہیں

مٹی کے ڈھیر سے کھیلتے ہیں

اور

اب کی بار محبت کا آغاز

 گاوں کے بوڑھے پیڑ سے کرتے ہیں

تاکہ شہروں کو جاکر

 ہم اپنی وفا کھو نہ بیٹھیں

سنو اب کی بار جب گاوں لوٹا ہوں تو

خود ساختہ تنہائی ہے

کچھ کتابیں ہیں

اور زندگی کے کھوجانے کا خوف  ہے

گاوں کی گلیوں میں کھویا ہوا بچپن ہے

صبح کے منظر میں پرندوں کی آواز

دوپہر کے آغاز میں

 موذنوں کی پُرسوز صدائیں

 شام کے  اداس پہر میں

 بے وقت کی اذانوں سے سکوت

پرانے گاوں کی فضاء

 بہار کے طور تو ہے

لیکن اداس ہے

 زمیں بدل رہی ہے

 آسماں بدل چکے ہیں

 انسان بدل رہے ہیں

لیکن میں مایوس نہیں ہوں

کہ

ہر صبح کی اگر شب ہے

تو ہر شب کی سحر ہے

تمہاری یاد میں گرفتار

تمہارا توقیر کھرل