ایرانی افسانے، نیپالی کہانیاں

یہ تحریر 2401 مرتبہ دیکھی گئی

ایک دور وہ تھا جب ہر اس شخص کو جسے فارسی نہ آتی ہو صحیح معنوں میں پڑھا لکھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پھر انگریزی تسلط کا آغاز ہوا اور فارسی کی بے قدری کا۔ ”پڑھو فارسی، بیچو تیل“ جیسا تضحیک آمیز محاورہ رائج ہوگیا۔ اب ہمیں یہ دن دیکھنے پڑے ہیں کہ جس شخص کو انگریزی نہ آتی ہو اسے پڑھا لکھا نہیں سمجھا جاتا۔

لیکن فارسی اور فارسی ادب کی تاب ناکی ہمارے ذہنوں کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں جلوہ گر ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ قدیم اور جدید فارسی ادب کے تراجم اور شاعری کے دو زبانی متون شائع کرنے پر توجہ دی جاتی۔ اس طرح فارسی سے ایک گہری اور تخلیقی سطح پر ربط قائم رہتا۔ کام کی باتوں پر عمل کرنے کے ہم قائل ہی کب ہیں۔

بہرحال، پچھلے پچیس تیس سال سے ہمارے بعض لکھنے والوں نے فارسی افسانوں کو اردو میں ترجمہ کرنے پر توجہ دی ہے۔ ان میں بذل حق محمود، نیر مسعود، معین نظامی، اجمل کمال اور اطہر مسعود شامل ہیں۔ ان مترجمین کی فہرست میں اب بصیرہ عنبرین کے نام کا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہئ اردو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ فارسی کے علاوہ انہیں ہندی بھی آتی ہے۔ انہوں نے ”زیبِ داستان“ کے عنوان سے ایک مجموعہ مرتب کیا ہے جس میں سولہ فارسی افسانوں کے تراجم موجود ہیں۔

نہ جانے فارسی ناولوں کے تراجم پر کوئی کیوں مائل نہیں ہوتا۔ شکر ہے کہ اردو میں صادق ہدایت کے مشہور ناول ”بوفِ کور“ کا اچھا ترجمہ دستیاب ہے۔ ”بوفِ کور“ بجا طور پر بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ واہمے اور حقیقت، خواب اور بیداری کا جو امتزاج اس میں نظر آتا ہے وہ بجائے خود ایک عجیب کرشمہ ہے۔ فارسی ناول نگار تو اور بھی ہیں مثلاً محمد علی افغانی، محمود دولت آبادی، علی دشتی، سیمیں دانشور، محمد علی جمال زادہ وغیرہ۔ شاید وجہ یہ ہو کہ پورے پورے ناولوں کا ترجمہ کرنا صبر آزما کام ہے، خصوصاً جب اس محنت کا معاوضہ ملنے کی توقع بھی نہ ہو۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بصیرہ عنبرین کی کتاب جدید فارسی افسانے کے مکمل طیف کی نمائندگی ہوتی ہے۔ سچ پوچھیے تو دو سو صفحات کی کتاب سے ایسا تقاضہ کرنا زیبا بھی کہاں ہے۔ اگر میر جمال صادقی کے چھ افسانے شامل نہ کیے جاتے تو شاید چند اور نئے لکھنے والوں کی تحریروں کی گنجائش نکل آتی۔ میر جمال صادقی کے جتنے بھی افسانے میری نظر سے گزرے وہ اوسط درجے کے معلوم ہوے۔ ممکن ہے فارسی میں انہیں رحجان ساز افسانہ نگار تصور کیا جاتا ہو۔

اس انتخاب میں سب سے عمدہ افسانہ سیمیں دانشور کا ہے۔ آج سے کوئی بیس برس پہلے، نجم سیٹھی کے اصرار پر، میں نے ان کے ایک ناول کاانگریزی ترجمہ پڑھا تھا اور ناول کی صنف پر ان کا عبور قابلِ رشک معلوم ہوا تھا۔رخسانہ زند نے ترجمہ بھی خوب کیا تھا۔ اب ان کا افسانہ ”جنت نظیر شہر“ پڑھ کر دوبارہ ان کی تخلیقی صلاحیت کو سراہنے پر مجبور ہو گیا۔ افسانے میں اول تا آخر درد مندی کی جو زیریں لہر کار فرما ہے وہ دل کو چھو لیتی ہے۔ ایک پچھڑی اور کچلی ہوئی عورت کی یہ کہانی الم ناک ہے جسے اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ ابھی ایک لڑکی تھی اور جس نے باقی زندگی ان افراد کو طرح گزاری جسے اس وقت اغوا کرلیا گیا جب وہ ابھی لڑکی تھی اور جس نے باقی زندگی ان افراد کی طرح گزاری جنہیں معاشرے کے حاشیوں کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے جہاں مستقل طور پر بے یاری و مدد گاری کی حالت میں دن رات بسر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے باوجود انسانیت کے جوہر کا ایک ننھا سا شعلہ اس کی ذات میں روشن رہتا ہے۔ بیانیے میں بڑی ہمواری ہے۔ جذباتیت، خطابت پردازی اور خوامخواہ کی فلسفہ آرائی کا نام و نشان نہیں۔

گلی ترقی کے دونوں افسانے اچھے ہیں۔ ”میں خود کتنا ناقابل برداشت ہوں“ کی کابوسی کیفیت کو کامیابی سے گرفت میں لیا گیا ہے۔ یہ بیماری سے زیادہ کسی ڈراؤنے خواب کی روداد معلوم ہوتا ہے۔ ”نانی جان کا گھر“ میں رچا دھیما دھیما نوسٹالجیا بھلا لگتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ مجموعے کے یہ تینوں قابل ذکر افسانے خواتین کے قلم سے ہیں۔ ایک اور افسانہ جسے دل چسپی سے پڑھا جا سکتا ہے ”یاد ماضی“ ہے۔ یہ مہشید امیر شاہی کا لکھا ہوا ہے۔ افسانے کو خود فریبی کی مثال سمجھا جائے یا محرومی پر مرہم رکھنے کا نیم ناکام اہتمام؟ اس ابہام کو افسانہ نگار کی ہنر مندی ہی سمجھنا ہو گا۔

فارسی کی معمولی شد بد رکھنے کی بنا پر میں ترجمے کی خوبیوں یا خامیوں پر رائے دینے سے قاصر ہوں۔ معین نظامی نے اپنے مختصر تعارف میں لکھا ہے کہ ”بیش تر ایرانی افسانے عام بول چال کی زبان میں لکھے جاتے ہیں جو کتابی و ادبی زبان سے فرسنگ در فرسنگ کا فاصلہ رکھتی ہے۔“ اس اعتبار سے مجموعے میں شامل افسانوں کا ترجمہ آسان کام ثابت نہ ہوا ہو گا۔

ایک چھوٹی سی کتاب بصیرہ عنبرین نے اور مرتب کی ہے۔ یہ نیپالی کہانوں ہیں جنہیں ہندی کی وساطت سے اردو میں منتقل کیا گیا ہے۔ اصل میں ان کہانیوں کا تعلق لوک مت سے ہے؛ اسی طرح کے قصے جو لوگ صدیوں سے سنتے اور سناتے چلے آئے ہیں۔ ان میں افسانوی فضا اور حقیقی ماحول اس طرح گڈ مڈ ہیں کہ ان کے تانوں بانوں کو الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ خیر عموماً شر پر غالب آتا ہے۔ دنیا میں ایسا کم ہی ہوتا ہے لیکن لوک کہانیاں بتاتی ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے یا ہونا چاہیے۔ اس دانائی پر لوگ کہاں کان دھرتے ہیں۔ ہندی میں بہت کچھ ایسا ہے جس کا ترجمہ ہونا ضروری ہے۔ امید ہے کہ بصیرہ عنبرین آیندہ کسی ایسی تصنیف کو اردو میں منتقل کریں گی جو قابلِ لحاظ اور دقیع ہو۔

زیبِ داستان۔ ناشر، بک ہوم، لاہور صفحات 200؛ چار سو روپیے

نیپالی کہانیاں۔ ناشر،بک ہوم، لاہورصفحات 128؛ دو سو ساٹھ روپیے