امیدِ حیات

یہ تحریر 2168 مرتبہ دیکھی گئی

(2)

ڈاکٹر امجد صاحب:

آج کل کی جو صورتحال  ہے اس میں ہماری نوجوان نسل کو لگتا ہے کچھ نہیں ہو سکتا ان کے لئے کوئی پیغام دیں؟؟

ڈاکٹر مظفر عباس :

میں نے جیسا کہ شروع میں بھی کہا ہے کہ ہم دیوار کے اس پار نہیں دیکھتے۔ دیوار کے اس پار کچھ اور چھپا ہوتا ہے ہمارے لئے میں نے آپ کو اپنی مثال دی ہے۔ ایف سی کالج کی جہاں میں پڑھنے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن بعد میں وہاں میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ  بنا۔ اس کے بعد اسی کالج کا پرنسپل بنا۔ تو یہ کیسے ہوا سب۔ جب میرا داخلہ نہیں ہوا تھا وہاں میں بہت مایوس تھا۔ لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ دیوار کے اس پار کیا ہے۔ تب میں یہ سوچتا تھا کہ یہ end of  world ہے۔ لیکن جب میں وہاں پرنسپل بنا تو میں خوش تھا۔ کہ یہ بھی میری زندگی میں میرے لئے موجود تھا۔ پھر اورینٹل  گیا وہ بھی میرے لئے زندگی تھی۔ قرآن میں بھی اللہ فرماتا ہے کہ میں تجھے ایسی جگہ سے دیتا ہو جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس لئے triangle پر اعتماد رکھیں۔

1۔محنت

2۔والدین کی دعائیں

3۔مشیت ایزدی

میں نے حضور پاک کی حدیث سنی ہے کہ اگر تمھاری دعا قبول نہیں ہوتی تو ماں کے قدموں میں جاؤ اگر حیات نہیں ہے تو اس کی قبر پر جا کر دعا مانگوں۔ اللہ دعا رد نہیں کرتا  ۔باقی ہر دن دوسرے دن سے اچھا ہوتا ہے۔ بس ہمیں پتہ نہیں ہوتا۔اب ڈاکٹر  امجد صاحب کے سوال کی طرف آتا ہوں۔ ایف سی کالج میں مجھے ایک ماحول مل گیا ادبی۔  تین چار استادوں کا میں یہاں ذکر ضرور کروں گا۔ ایک پروفیسر  اظہر  الدین  جو فارسی کے تھے۔ پروفیسر  کلیم الدین  احمد  انگریزی  کے تھے پروفیسر مصور حسین  اردو کے  جو میرے اپنے استاد تھے  انھوں نے میری بہت رہنمائی کی۔  اور چوتھے پروفیسر  رفیق احمد اختر یہ بڑا معروف نام ہے  آپ جانتے ہو گے اس زمانے میں بھی بڑے مشہور تھے۔  وہ ایک صوفی تھے اور تصوف میں بہت آگے تھے۔  تصوف میں وہ میرے استاد بھی تھے۔  وہ انگریزی  میں مجھے تقریریں لکھ کر دیتے تھے۔ اردو میں تقریریں  پروفیسر  ظفر لکھ کر دیتے تھے۔  ان پروفیسرز نے مجھے تقریروں  کے معاملہ میں کافی ٹریننگ  دی۔ میں اپنے کالج کی طرف سے جب جاتا تھا اور ادھر سے ڈاکٹر  لیاقت نیازی  آج کل وہ ریٹائرڈ  ہوئے  ہیں سیکرٹری لیول پر  وہ دوسری طرف سے  آئے ہوئے تھے۔ وہ بعد میں ہمارے سیکرٹری  بنے۔  ایک سعد اللہ خاں  ہوتے تھے  وہ ہمارے  آئی ڈی رہے۔  وہ بھی وہاں آتے تھے۔ اس طرح ہمارے کالج سے ایک ٹیم جاتی تھی۔ وہیں سے میری ادبی زندگی کا آغاز ہوا۔ پہلے میں چھوٹے موٹے شعر کہہ لیتا تھا۔ لیکن مجھے عروض کے بارے میں کچھ اتنا پتہ نہیں تھا۔ لیکن بی اے کے کورس میں چھوٹا سا کورس تھا عروض کا  وہ میرے استاد ہمیں پڑھاتے تھے۔  انھوں نے ہمیں وہ ایسا پڑھایا۔ دو پروفیسرز کا میں اور یہاں ذکر کروں گا۔ حافظ ثناء اللہ حافظ انھوں نے میرے اندر قرآن فہمی پیدا کی۔  بعض استاد آپ کے اندر بیچ ڈال دیتے ہیں۔ اور آج میں قرآن کو سمجھ بھی لیتا ہوں  اور یہ سارا کا سارا کریڈٹ میرے استاد ثناء اللہ صاحب کو جاتا ہے۔ بہت بڑے استاد تھے۔ اسلامیات کے کورس میں ڈھائی پارہ شامل ہوتا تھا سورۃ بقرہ کا۔ ڈھائی پارہ کے اندر انھوں نے ہمیں ایسا پڑھایا کہ قرآن فہمی کا شعور میرے اندر پیدا ہوگیا۔ پھر مجھے اتنا شوق ہوا کہ می  نے خود قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ الحمدللہ  پھر اس کے بعد میں جامع الا ظہر میں بھی رہا۔  میں نے وہاں بھی چار سال پڑھا۔ تو وہاں سے بھی میں نے بہت کچھ سیکھا۔  یہ تھی استادوں کی تربیت۔ پھر اس طرح غزلیں لکھنی شروع کی۔  چھوٹی موٹی غلطیوں کو ٹھیک کر دیتے تھے میرے استاد۔ 

ایک شعر میں نے کہا تھا۔

زندگانی موت کا پیغام ہے

صبح کا انجام آخر شام ہے

یہ میں نے لکھا تھا شعر تو انھوں نے کہا کہ آپ تو بہت بڑے شاعر ہے۔ یہ لکھتے لکھتے مجھ میں یہ صلاحیت پختہ ہو گئی۔ اور پھر ایک زمانہ آیا کہ مجھے اورینٹل کالج میں داخلہ مل گیا۔اورینٹل کالج میں کچھ اساتذہ  کا میں ذکر کروں گا۔ یہاں ڈاکٹر عبادت بریلوی ،ڈاکٹر ناظر حسن زیدی، ڈاکٹر  عبید اللہ خاں، ڈاکٹر  تبسم کاشمیری، وہ ماشااللہ ابھی بھی حیات ہے۔ تبسم کاشمیری صاحب نے بھی میری تربیت کی۔ اور آج بھی میرا ان سے بڑا قریبی رابطہ ہے۔ ڈاکٹر  سہیل احمد خاں مرحوم  اگرچہ مجھ سے سینئر  تھے۔ لیکن وہ بھی میرے استاد بن گئے تھے۔ ایک دفعہ ہم لائبریری  میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔  ان کو عبادت بریلوی صاحب نے بلایا۔ جب واپس آئے تو کہنے لگے کہ  جب میں گیا تھا تو تمھارا ٹاس تھا۔ اب میں آپ لوگوں کا استاد بن گیا ہوں۔ دھیان سے رہنا۔ پھر ڈاکٹر  وحید قریشی جیسا نام ور محقق  ان کی تربیت، حافظ محمد ادریس  بہت بڑے آدمی تھے۔ اس زمانے میں ہمارے ساتھ عربی میں ایم اے کر رہے تھے  نواز شریف  کی بیگم کلثوم نواز یہ بھی ہمارے ساتھ تھی میری کلاس فیلو تھی۔ وہاں پڑھنے والے بڑے بڑے لوگ تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر  سلمی حسین بہت بڑی افسانہ نگار تھی۔ اس کے علاوہ میں ایک بڑا نام بھول گیا پروفیسر سجاد باقر رضوی صاحب  کیا آدمی تھے وہ  ہمیں ٹی ہاؤس لے جانے والے تھے۔ ڈاکٹر تبسم اور سجاد باقر رضوی صاحب  اور ہم پانچ چھ لوگ جو ٹی ہاؤس جاتے تھے ہمارا بل سجاد باقر رضوی صاحب دیتے تھے۔یا ڈاکٹر  تبسم کاشمیری  دیتے تھے۔ ہمارے پاس پیسے کہاں ہوتے تھے۔ ایک مہمیز مجھے وہاں سے ملی۔ اور ایسی ملی کہ فن لطیف میں میری نظریں چلنے لگی ۔وہ ترقی پسند زمانہ تھا میرے خیالات بھی کچھ ترقی پسند تھے۔ میں  اسلام کو ترقی پسند دین سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں اسلام میں آگے تک کی گنجائش ہے۔ پیچھے تک کی نہیں ہے۔ اسلام پروگریسو مذہب ہے۔ جب میں کالج میں تھا تو لاہور ریڈیو نے ایک پروگرام کیا کالج میگزین کے نام سے۔ محمد ادریس مرحوم بہت بڑے صحافی تھے اس دور میں انھوں نے اس پروگرام میں کو کمپیئر کیا۔ میں اس پروگرام میں جانا شروع ہو گیا۔ جب میں بی اے میں پہنچا تو مجھے اس پروگرام کی کمپیئرنگ مل گئی  ۔وہاں جانے سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں نے وہاں ایسے لوگ دیکھے جن کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سید عابد علی عابد، ناصر کاظمی، صوفی تبسم گانے والے بہت بڑے بڑے لوگ اس دور میں جب میں ریڈیو کرنے جایا کرتا تھا میں نے دیکھے۔ ان بڑے لوگوں کی محبت نے مجھے اس قابل کیا کہ میں ایک اچھا شعر کہہ سکوں۔  اور پھر بعد میں جب میں نے دیکھا وہ جیسے ایلیٹ نے کہا تھا کہ شاعری موزوں نہ ہو تو چھوڑ  دینی چائیے۔ میں نے سوچا کہ یہ میرا میدان نہیں ہے۔ میں نثر کی طرف آیا۔ نثر میں تنقید اور تحقیق کو اپنا موضوع بنایا۔ اس کے بعد پندرہ یا بیس سال بعد جب میں عمرہ کرنے گیا تو میں نے ایک نعت کہی۔ گنبد خضری کے سامنے بیٹھ کر۔ پھر لاہور آکر ایک اور نعت  لکھی۔ اس کے بعد میرے کیرئیر میں ایک اور تبدیلی آئی۔ ریڈیو میں پروڈیوسرز  کی پوسٹیں نکلیں۔ میں نے اپلائی کیا۔ یہ 1971ء کی بات ہے۔ انٹرویو ہوا۔ اس وقت لاہور، کراچی، پشاور ہر جگہ انٹرویو  ہو رہے تھے۔ پوسٹیں آٹھ یا نو تھیں۔ وہاں عابد صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اور لوگ بھی تھے۔ میں چوں کہ وہاں کام بھی کرچکا تھا۔ انھوں نے کہا کہ کوئی غزل سناؤ۔ میں نے عابد علی عابد کی ایک غزل سنائی۔ اس غزل کا آخری مصرع

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

اس مصرع پر واہ واہ ہوئی۔ اور میرا انٹرویو ہوگیا۔ اور میری اپوائنمنٹ بھی ہوگئی۔ وہاں مجھے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر  یوسف ظفر جو راولپنڈی  سے تھے وہ ملے۔ پھر میں نے وہاں دو مہینے کام کیا۔ پھر اس کے بعد میری لیکچرر شپ سلیکشن ہو گئی۔ والد صاحب کو کال کی تو انھوں نے کہا کہ تم لیکچرر بنو۔ پھر میں نے فیڈرل گورنمنٹ  کی پرمانینٹ نوکری چھوڑ  کر لیکچر کی سیٹ لے لی۔ 

ڈاکٹر امجد صاحب:

آج کل کی جو صورتحال  ہے اس میں ہماری نوجوان نسل کو لگتا ہے کچھ نہیں ہو سکتا ان کے لئے کوئی پیغام دیں؟؟

ڈاکٹر مظفر عباس :

میں نے جیسا کہ شروع میں بھی کہا ہے کہ ہم دیوار کے اس پار نہیں دیکھتے۔ دیوار کے اس پار کچھ اور چھپا ہوتا ہے ہمارے لئے میں نے آپ کو اپنی مثال دی ہے۔ ایف سی کالج کی جہاں میں پڑھنے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن بعد میں وہاں میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ  بنا۔ اس کے بعد اسی کالج کا پرنسپل بنا۔ تو یہ کیسے ہوا سب۔ جب میرا داخلہ نہیں ہوا تھا وہاں میں بہت مایوس تھا۔ لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ دیوار کے اس پار کیا ہے۔ تب میں یہ سوچتا تھا کہ یہ end of  world ہے۔ لیکن جب میں وہاں پرنسپل بنا تو میں خوش تھا۔ کہ یہ بھی میری زندگی میں میرے لئے موجود تھا۔ پھر اورینٹل  گیا وہ بھی میرے لئے زندگی تھی۔ قرآن میں بھی اللہ فرماتا ہے کہ میں تجھے ایسی جگہ سے دیتا ہو جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس لئے triangle پر اعتماد رکھیں۔

1۔محنت

2۔والدین کی دعائیں

3۔مشیت ایزدی

میں نے حضور پاک کی حدیث سنی ہے کہ اگر تمھاری دعا قبول نہیں ہوتی تو ماں کے قدموں میں جاؤ اگر حیات نہیں ہے تو اس کی قبر پر جا کر دعا مانگوں۔ اللہ دعا رد نہیں کرتا  ۔باقی ہر دن دوسرے دن سے اچھا ہوتا ہے۔ بس ہمیں پتہ نہیں ہوتا۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد ایسے لوگوں سے ملوانا جنھوں نے اپنی زندگی میں بہت محنت کی اپنا نام کمایا عزت کمائی اب انکو دنیا کامیاب آدمی کے طور پر جانتی ہے ادب اور کلچر کے حوالے سے جو اہم شخصیات ہیں ان کے متعلق بات ہو گی۔ آج کی ہماری شخصیت ڈاکٹر منظر عباس صاحب کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں اردو دنیا  education institution سے وابستہ لوگ اور ثقافتی زندگی سے وابستہ لوگ ان کو بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔ میں آپ سے انکا مختصر تعارف کرواؤں گا صرف اس لیے کہ بات کو شروع کرنے کے لیے ایک بنیاد بنا سکیں۔ تو ڈاکٹر مظفر عباس کا جنم ایک متوسط گھرانے میں ہوا یعنی ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی سرکاری اداروں میں حاصل کی جیسے اب رواج ہے کہ والدین بڑے مہنگے پرائیویٹ سکولوں اور کالجز میں بچوں کو پڑھاتے ہیں۔۔ پھر انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا اور پھر اسی مضمون میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بی ایڈ کیا اور ایم ایڈ انھوں نے انگلینڈ یونیورسٹی سے کیا۔ پھر انھوں نے اپنے آپ کو صرف ٹیچنگ تک محدود نہیں رکھا۔ وہ آگے بڑھے اورانھوں نے  اپنا لوہا ایک اچھے  ایڈمنسٹریٹر کے طور پر منایا۔ کالجز کے پرنسپل رہے اور ایف سی کالج جیسا بڑا کالج جسکا شمار پاکستان کے عظیم  درس  گاہوں میں ہوتا ہے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو سرو کیا پھر یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں کام کیا۔ پھر وہ پبلک سیکٹر سے ریٹائرڈ ہوئے جیسا کہ تمام سرکاری ملازمین ایک دن ہوتے ہیں۔ لکن انھوں نے ریٹائرمنٹ کو اپنی زندگی کے لیے ایک نیا سنگِ میل سمجھا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں گئے اور وہاں شروع کیا۔ اچھا تو یہ انکی ہے پروفیشنل لائف ساتھ ساتھ دلچسپ بات یہ ہے کہ انکی ادبی زندگی بھی فتوحات سے خالی نہیں ہے یعنی کہ انکو انکی کئی کتابوں پر ایوارڈ دئیے گئے  ان کی پہلی کتاب پاکستانی شاعری کے حوالے سے ہے پھر انھوں پرانا مسودہ یوسف کمبل پوش کو ایڈیٹ کیا اور پھر انھوں نے بہت سی تصانیف لکھیں یعنی انکی پروفیشنل زندگی میں کامیابیاں اور ادبی زندگی میں کامیابیاں پہلو بہ پہلو چلتی رہی ہیں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ لوگ ادبی دنیا کی طرف نکل جاتے ہیں  وہ پروفیشنل نہیں ہوتے صرف اپنی نوکری پوری کرتے ہیں  کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ادبی اور پروفیشنل زندگی  دونوں میں کامیاب ہوتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں می‌ ہوتا ہے۔

لیکن ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کے ابتدائی تجربات وہ جگہ جہاں سے آپ as a professional  اپنی زندگی کا آغاز کیا وہ ماحول اس میں آپ نے کیسے struggle کی  اور پھر کیسے رفتہ رفتہ جیسے عام طور پہ ہوتا ہے کہ سب ایک ہی عمل جسے پنجاب پبلک سروس سے پاس ہونے والے گریڈ 17 میں اولین تنخواہ شروع کرتے ہیں لیکن پھر کوئی کہیں  پہنچتا اور کہیں  کوئی۔

ڈاکٹر مظفر :  پہلی بات تو یہ ڈاکٹر امجد طفیل نے ضرورت  سے زیادہ میرے بارے میں باتیں کر لیں یہ انکی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انھوں نے مجھے اتنی عزت دی مگر  اصل بات تو یہ ہے کہ  میں  ایک چھوٹا سا آدمی ہوں۔ اور جیسے فارسی کا ایک مصرع۔۔۔۔۔۔۔۔ “مجھے پتا ہے کہ میں کیا ہوں” اور انسانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ویسے ہم نے چاند ستارے فتح کر لیے یہ کر لیا وہ کر لیا لیکن ایک حیثیت کیا ہے ہماری کہ ایک چھوٹے سے کرونا نے پوری دنیا کو مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے سائینسدان اور بڑے بڑے مقرر ہیں وہ سارے کے سارے ناکام ہوگئے ہیں کسی کو نہیں پتا کہ کیا ہونا ہے۔ یہ انسان کی اصل حیثیت ہے اور قرآن چودہ پندرہ سو سال پہلے ہی بتا رہا ہے کہ انسان کی حیثیت ایک چھوٹے سے نطخے سے زیادہ نہیں ہے۔ انسان واقعی ایک بہت حقیر سی چیز ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی کہا ہے “انسان کے لیے وہی کچھ  ہے جس کے لیے اس نے محنت کی” دو چیزیں مشروط ہیں۔ کوشش اور تائیدِ الٰہی۔ تیسری چیز بھی شامل کرتے ہیں اور وہ ہے میرا ذاتی تجربہ۔ وہ یہ ہے کہ والدین کے ساتھ آپکا طرزِ عمل کیا ہے؟؟ میں ہر جگہ یہ بات کہتا ہوں کہ محنت، تائیدِ الٰہی اور میرے والدین کی دعائیں۔ یہ تین چیزیں ایک تکون ہیں اس تکون نے میری زندگی کو تبدیل کیا ہے کیونکہ آج تک چونکہ ڈاکٹر طفیل امجد مجھے ذاتی طور پہ  کافی عرصے سےجانتے ہیں کہ میں نہ کبھی کسی سفارش کے پیچھے بھاگا   اور نہ ہی کسی مقصد کے پیچھے بھاگا جو کچھ مجھے اللہ نے دیا وہ خود ہی chain of events بنتی  چلی گئیں جیسے کہ            نے کہا ہے کہ ہزاروں لیکچرار ہوتے ہیں ان میں سے کتنے ہی ڈائریکٹ سلیکشن میں آ کر ترقی کرتے کرتے کہاں تک پہنچتے ہیں تو ایجوکیشن میں جتنے بڑے عہدے ہو سکتے ہیں جتنے بڑے منصب ہو سکتے ہیں جتنے ہی بڑے گریڈز ہو سکتے ہیں اللہ پاک نے مجھے وہ سارے دیے ہیں اور وہ کیسے دیے ہیں بغیر کسی سفارش کے بغیر کسی ساتھی کے اور ٹرائی اینگل میں نے آپکو بتا دیا کہ کس زاویے میں  رہیں۔ ٹرائی اینگل (تکون) میں رہیں گے تو سب کچھ ملے گا ٹرائی اینگل کا پہلا مرحلہ جو آپ لوگ جانتے ہیں وہ میرے نزدیک تائید یعنی مشیت الٰہی ہے۔ دائیں طرف والدین کی دعائیں بائیں طرف سٹرگل  یعنی محنت۔ اللہ کی محبت blessing of God اور پھر   Right blessing of parents میں اور left میں  struggle یہ تینوں چیزیں مل کر اسکے اندر رہیں گی تو you are always successful  تو پھر کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہو گی۔ مثلاً ہمارے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لوگ سب ہی جانتے ہیں وائس چانسلر یا چئیر مین بورڈ آفس بننا اور آجکل کے دور میں ہی نہیں ہمیشہ سے ہی ان کے لیے بہت سر توڑ کوشش کرتے ہیں جیسے ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک  کامیاب عورت ہوتی  اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں جن کے پیچھے ایک کامیاب میں سفارش ہوتی ہے۔ امجد صاحب جانتے ہیں خاص طور پر  ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کہتے ہیں کہ دھکا لگواؤں اور یہ دھکا کون لگاتا ہے؟ بڑا کوئی سیاسی آدمی یا اثرو رسوخ رکھنے والا آدمی۔ میں آپکو بالکل اور آج کے حالات جھوٹ بولنے والے ہیں ہی نہیں کیونکہ کل کا پتہ نہیں اس لیے آدمی صحیح بولے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ سچ بولوں۔ تھوڑ بہت اللہ معا ف کرے کوتاہی ہو جاتی ہے لیکن کوشش یہ ہوتی کہ آدمی کو غلط بیانی سے بچایا جائےاور خاص طور پر وہاں جہاں نئی جنریشن کے کریکٹر کا مسئلہ ہوتو میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ میں نے آج تک کبھی کسی سہارے کا ساتھ نہیں لیا۔ بلکہ جو کچھ حاصل کیا اپنی محنت، ماں باپ کی دعائیں اور اللہ کی رحمت سے حاصل کیا تو سب سے پہلے struggle ( کوشش)۔

ایک ہوتا ہے پیشہ (پروفیشن ) اور ایک ہوتا ہے passion۔ امجد طفیل صاحب  سائیکالوجی میں پیشن(passion) کے کئی مطلب اور کئی معانی ہیں۔ تو میرا موٹو یہ ہے شروع سے ہی made your passion make profession کہ اپنے passion کو profession بناؤ جب پیشن بناؤ گے تو کام کرتے ہوئے مشکل نہیں آئے گی۔ ڈاکٹر صاحب آپ نے مجھے کام کرتے ہوئے ریکھا ہے جب میں صبح آ جاتا تھا تو مجھے یہ نہیں پتا ہوتا تھا کہ میں نے واپس کب جانا ہے۔ اور جن حالات میں آپ اور میں اکٹھے تھے یونیورسٹی میں۔۔ ایجوکیشن یونیورسٹی نئی  نئی بن رہی تھی میں بیرونِ ملک سے واپس آیا تو گورنمنٹ آف پنجاب نے مجھے ڈائریکٹر آف سوشل سائینسز انوائیٹ کر لیا تھا اس وقت ہمارے معروف وائس چانسلر۔۔۔ اللہ انکی مغفرت فرمائے پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی حبیب اللہ اچھا آدمی تھا جن سے میں نے بہت سیکھا ہے۔ ابھی چھے سات ماہ پہلے انکا انتقال ہوا وہ بھی انتھک آدمی تھے وہ بھی آئے تھے اور انکو بھی جانے کا پتا نہیں ہوتا تھا اور ہم نے اپنے ساتھی ایسے بھی دیکھے تھے جو گھڑی پہ نظر رکھتے تھے کہ جہاں دو تین یا چار بجے یونیورسٹی کا ٹائم ہوتا تھا اور انکے گھر واپسی کے معاملات تیار ہوتے تھے تو میں اور وائس چانسلر عام طور پہ وہیں بیٹھے رہتے تھے اور اکھٹے واپس آتے تھے  کئی دفعہ وہ اکیلے ہی بیٹھے رہتے جب آدمی  اپنے پروفیشن کو  بوجھ  نہ سمجھے اسے کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ یہ آپکو میں ایک استاد کے طور پر آپکو مشورہ دے رہا ہوں کبھی اللہ کی تائید سے انکار نہ کرو  میں نے یہ لے لیا وہ لے لیا آپ کچھ نہیں ہیں آپکے پیچھے جو ذات کر رہی ہے وہ اللہ کی ذات ہے۔۔ ALLAH almighty  وہ راستہ دکھانے والا ہے۔ اس نے راستہ دکھا دیا یہ راستہ اچھا ہے اور یہ برا اب یہ آپکی چوائس ہے کہ آپ اچھا راستہ چننا ہے یا برا ۔۔ اچھا تو بات میں یہ کر رہا تھا کہ جب آپ پروفیشن کو پیشن کے طور پہ لیتے ہیں تو  آپ کبھی ناکام نہیں ہوتے کبھی آپکو سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی

ابھی امجد صاحب ذکر رہے تھے میں دہراتا ہوں ہمارے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں جو پوسٹیں ہوتی ہیں ڈائریکٹر، چئیرمین، سیکنڈری بورڈ آف انٹر میڈیٹ، وائس چانسلر آف یونیورسٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب چیزیں مجھے اللہ نے بیک وقت نہیں بلکہ اپنے اپنے وقت پر دی۔ میں ایف سی کالج میں پرنسپل رہا اسکے علاوہ ایجوکیشن یونیورسٹی میں ڈین بھی رہا اور ایک دفعہ وائس چانسلر بھی رہا ڈائریکٹر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا، بورڈ آف انٹر میڈیٹ آف سیکنڈری سرگودھا میں رہا اس طرح گورنمنٹ کالج جیسے انسٹیٹیوٹ میں پڑھایا اور میں کہتا ہوں میں سوچ بھی نہیں سکتا اللہ نے مجھے میری سوچ سے زیادہ دیا۔۔ اللہ کا احسان اور دیا بھی کیسے کہ مجھے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑا جب ہم سفارش کسی سے مانگتے ہیں تو۔۔ تو مجھے ایک شعر یاد آ گیا

ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزارسجدوں سے دیتا ہےآدمی کو نجات  جس ایک سجدے کو تو بوجھ سمجھتا ہے جو اللہ کے سامنے ہم کرتے ہیں اگر وہ کر لیں تو ہم کو ہزار سجدوں سے نجات مل جاتی ہے اور سجدہ کریں تنہائی میں اس سے مانگیں وہ دیتا ہے وہ گناہ گاروں کو بھی دیتا ہے اس کے لیے سب برابر ہیں۔ کسی کو  وہ دیتا ہے کسی کو نہیں دیتا۔ کسی کو دے کر چھین بھی لیتا ہے اس لیے کہتے ہیں کہ ڈرنا چاہیے اسکے عذاب سے۔۔ جب کچھ مل جائے تو اس پہ غرور نہ کرو۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول یاد آتا ہے

ان کا فرمان ہے کہ اللہ کے سامنے جھک جاو ۔کیوں کہ جو درخت پھلدار ہوتا ہے وہ ہمیشہ جھکا ہوا ہو تا ہے ۔۔اور جس درخت پر پھل نہیں ہوتا وہ بالکل سیدھا ہوتا ہےاور پھلدار درخت ہوتے جیسے آم امرود بالکل جھکے ہوتے ہیں ۔

مجھے وہی شعر یاد آگیا ۔وہ ایک سجدہ جیسے تو گراں سمجھتا ہے ” یعنی جیسے تو بوجھ سمجھتا ہے” ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ۔۔

یعنی وہ انسان کو بہت سے سجدوں سے بچاتا ہے ۔۔۔

سعدی نے ایک واقعہ لکھا ہے ۔۔۔”ایک شخص بادشاہ سے مانگنے گیا تو دربار کے دروازے پر بادشاہ نماز پڑھ تھا اور ہاتھ پھیلاکردعا مانگ رہا تھا ۔۔

تو فقیر دیکھ کر واپس آگیا

 بادشاہ نے اپنے ملازم سے کہا کہ فقیر کو دو جو مانگنے آیا ہےتو فقیر نے کہا کہ اب میں آپ سے نہیں لوں گا اور میں جان کر نہیں گیا اور نہ اس لیے گیا ہوں کہ آپ مصروف تھے ۔۔بلکہ میں نے اب جانا ہی تھا۔

تو بادشاہ نے پوچھا وجہ کیا ہے؟

تو فقیر نے کہا کہ میں سمجھا تھا کہ تو بادشاہ ہے اور اب میں نے دیکھا تو بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا ہے ۔تو کیوں نہ میں اس کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں جس کے سامنے جس کے سامنے تو ہاتھ پھیلا رہا ہے۔

اگر میں تمھارے سامنے ہاتھ پھیلاوں گا تو فقیر کا فقیر  ہی رہوں گا اور میں نے اب دیکھا کہ جس سے تو مانگتا ہے اس نے تجھے بادشاہ بنا دیا ہے ۔۔تو میں اس کیوں نہ مانگوں جو مجھے بادشاہ بنا دے۔۔

تو یہ صورتحال ہے اس صورت میں جب ہم دیکھتے تو انسان کو اس باتکا علم ہو جاتا ہے کہ بار بار جگہ جگہ لوگوں سے سفارش لینا اور لوگوں کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ انسان ایک ہی جگہ ہاتھ پھیلائے ۔۔۔اور بے نیاز ہو جائے۔۔۔اور میں یہ اپنیزندگی کا تجربہ شئیر کرنا چاہتا ہوں کہ جتنی بھی میری عادتیں تھیں علمی ادا کی فتوحات کہہ لیں ترقی کہہ لیں سب کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ میں نے آج تک کبھی بھی اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں مانگا ۔۔

ایک اور بات میں آپ سے شیئر کرونگا بڑ ی ضرور ی ہے کہ۔۔

اب تو میری والدہ کو فوت ہوئے کافی عرصہ ہوگیا ہے جب وہ حیات تھیں ۔۔میں صرف ایک ایک واقعہ شیئر کرونگا کہ جب وہ حیات تھیں اور میں صبح کسی کام کے لیے جاتا تھا تو ان کے پیر دباتا تھا اور پیر دبا کر ان سے کہتا تھا کہ میرے لیے دعا کریں پھر دعائیں مائیں ویسے بھی کرتی ہیں مجھے ابھی تک یاد ہے اور ڈاکٹر امجد طفیل کو بھی یادہوگا

 1981 میں میں گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا

 1984کی بات ہے شائد تب میں نے پی ایچ۔ڈی بھی کر لی تھی

شائد 13 پوسٹیں نکلی پنجاب پبلک سروس کمیشن سے پہلی اور آخری دفعہ اس کے بعد شائد نہیں نکلی اس میں انکو پرنسپل کی ضرورت تھی اور گورنمنٹ نے فیصلہ کیا کہ جو young PhD  ہے ان کو ڈائریکٹ سلیکٹ کیا جائے ارو پرنسپل لگا دیا جائے ۔۔

لوگوں نے کہا کہ apply کرو میں نے کہا میں  کیا apply کرو ں ابھی نیا نیا اردو کا لیکچررلگا ہوں نہ کوئی کوئی تجربہ میں کیسے یہ سارا کام کرونگا ۔۔۔خیر میں نے apply کر دیا اور پتا چلا کہ کوئی 80 سے 90 لوگوں نے apply کیا تھا تو مجھے کال آگئی پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا ویسے بھی جن لوگوں نے apply کیا تھا ان میں سب subject تھے فزکس کیمسٹری وغیرہ ان سب میں سے مجھے کال آئی اور ڈاکٹر خورشید رضوی جوکہ مجھ سے سینئر تھے۔۔وہ بہت بڑے اور عمدہ شاعر ہیں میں حیران تھا کہ مجھ جیسے چھوٹے آدمی کو کیسے کال آگئی

اور باقی سب کو نہیں آئی جب کال آئی تو میں اپنی والدہ سے سے کہا بلکہ وہ مجھے پہلے ہی کہتی تھیں کہ بیٹا تو ہوجائے گا

بچہ جیسا بھی ہو ماں کے لیے چاند سے کم نہیں ہوتا ۔۔مجھے لگتا تھا ماں ایسے ہی کہہ رہی ہے تو ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔

میں نے کہا دیکھی جائے گی تو پھر وہ تاریخ بھی آگئی اور لیٹر بھی آگیا اور میں چلا گیا ۔۔

صبح میں پھر میں ماں سے مل کر گیا ۔۔موٹر سائیکل میرے پاس ہوتی تھی وہ بھی میں نے قسطوں پر لی تھی   ۔۔میں نے کالج کے کچھ دوستوں ساتھ کمیٹی ڈ الی ہوئی تھی اور ہم سب پیسے جوڑ کر ایک کو دے دیتے تھے کہ وہ اپنی ضرورت پوری کر لے۔۔

تو کمیٹی نکلی پرویز بھٹی کی جو کہ بہت بڑے پروفیسر تھے تو انہوں مجھے کہا کہ یار تمھاری شادی ہونے والی ہے اور ابھی تک سائیکل چلاتے ہو کمیٹی تم رکھ لو۔۔۔

تمہاری باری 4 مہینے بعد آئے گی تب تک تمہاری شادی ہو جائے گی ۔۔۔تم مجھے چار مہینے بعد دے دینا ایسے لوگ ہوتے تھے تب اور ایسے لوگ اب بھی ہوں گے  ۔۔

پرویز بھٹی نے اپنی ضرورت چھوڑ کر پیسے مجھے دے دئیے

چھ ہزار کمیٹی نکلی تھی چھ سو کسی نے ادھار دیا ۔چھیاسٹھ سو کی موٹر سائیکل خریدی

میں نے ۔۔والدہ کی دعائیں لے کر کتابوں کا پلندہ اٹھا کر نکل گیا ۔۔

اب انٹرویو شروع ہوا ۔۔تو 13 یا 14 آدمیوں کا بورڈ جس میں بڑے بڑے پی ایچ ۔ڈی لوگ تھے ۔۔اس بورڈ میں اردو کے بھی استاد تھے اندر میرے استاد بھی بیٹھے ہوئے  تھے پھر انہوں نے سوال کیے مجھ سے انہوں نے مجھ سے عربی انگریزی وغیرہ کے سوالات کئے ۔بعض اوقات ایسی چیزیں کام آجاتی ہیں ۔۔

میں شوقیہ طور پر ان دنوں قرآن مجید کا مطالعہ کر رہا تھا ۔تو مجھ سے اتفاقا تفاسیر پر سوال ہوگیا ۔۔اور میں نے وہاں ابوعلی مودودی صاحب،مولانا حافظ عثمان علی کی جتنی تفاسیر وہ میں نے بتائی پھر قرآن کریم کے حوالے سے سوالات شروع ہوگئے ۔۔

ایک صاحب نے قرآن مجید کی آیت پڑھی میں وہ آیت درست کی اس وقت قرآن کریم بہت پڑھتا تھا قرآن پاک میں دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں جو موجود نہ ہو ۔۔۔

قرآن پاک کی آیات میری بہت مدد کرتی ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کہا تھا کہ” جب مجھے اللہ پاک سے بات کرنی ہوتی ہے تو میں نماز پڑھتا ہوں  جب میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ سے باتیں تو قرآن کریم  پڑھتا ہوں “۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔