الم، دکھ کی انتہا

یہ تحریر 581 مرتبہ دیکھی گئی

مجھے یہ دکھ ہے کہ شب کی دہلیز پر سورج مر گیا اور رات نے خبر تک نہ لی۔ اس سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ سورج کی روشنی سے چمکنے والا چاند اس کا ہمدرد بننے کی بجائے اس کی جگہ نمودار ہوا اور اپنی دھاک بٹھانے لگا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ دریا سسک سسک کر مرتا رہا اور بارش نے ادھر کا رخ نہ کیا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ ایک گلی میں صف ماتم بچھی تھی تو دوسری گلی رقص و سرور کا جشن منایا جا رہا تھا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ میں اس ملک کا رہنے والا ہوں ، جس میں ایک قتل کرنے پر سزائے موت اور ایک ہزار قتل کرنے پر تمغہ ملتا ہے۔ ایک چوری کرنے پر جیل کی سلاخیں مقدر بنتی ہیں تو پورا ملک لوٹ لینے پر وزیراعظم کا درجہ دیا جاتا ہے۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ بیسواؤں نے ملکی غیرت کی وجہ سے اپنے جسم دشمن کے ہاتھوں فروخت نہ کیے مگر حکمرانوں نے ملک بیچ دیے۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ ایک گھڑی کی وجہ سے ملک میں ہنگامے برپا ہو گئے ، اور پنتالیس ہزار ایکڑ زمین کی منتقلی پر مکمل سکوت رہا۔
مجھ یہ دکھ ہے کہ ایک کونج اپنے ڈار سے بچھڑ گئی اور تنہائی کی سولی چڑ گئی۔ اور ڈار نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ معاشرے نے خواجہ سرا کو قبول نہ کیا اور وہ جنسی درندگی کا شکار بن کر اپنی زندگی کی شمع کی روشنی سے محروم رہ گیا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ دو بھائیوں کی ماں کی بے کفن لاش کمرے میں پڑی تھی اور وہ نشہ کرنے میں مشغول تھے۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ ایک لڑکی نے ماں باپ کا سہارا بن کر ثابت کر دیا کہ وہ بھی سب کچھ کر سکتی ہے۔ مگر معاشرے نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ معاشرے نے یہ تقسیم ہی کیوں کی کہ وہ لڑکی ہے، لڑکا ہے یا خواجہ سرا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ فقیر کی مزار پر چادر چڑھائی گئی مگر اس بیٹی کی چادر کھینچ لی گئی، جو جہیز لے کر نہ آئی تھی۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ رات کی تاریکی میں ایک عزت کو نیلام کر دیا گیا اور تن ڈھانکنے کے لیے اس کا سایہ بھی اس کے ساتھ نہ رہا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ ہوس کو محبت کا نام دیا گیا اور ایک ناجائز بچہ اس کی نشانی ، گلیوں میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا۔
مجھے یہ غم ہے کہ میں کسی کو اپنا دوست نہ بنا سکا۔ اور المیہ ہے میرے لیے کہ میں خود کو اس کام کا اہل بھی نہیں پاتا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں۔ دوستی روح سے آشنائی کا نام ہے۔ مجھے جو بھی ملا کام سے آشنا ملا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ گاڑی خریدنے کے بعد اس پر لکھوا دیا گیا “ماں کی دعا” ، اور باپ کے ان چھالوں پر مرہم نہ رکھا گیا جو اولاد کو کامیاب دیکھنے کے لیے کی گئی محنت کی وجہ سے پڑے تھے۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ آدمی بوڑھا ہو گیا مگر اس کی ہوس ختم نہ ہوئی۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ غلط وقت پر لوگ چیختے رہے اور جب بولنے کا وقت آیا ، ان کی زبانوں کو قفل لگ گئے۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ اس لڑکے کا کیا بنے گا جس کا سارا مستقبل لیپ ٹاپ میں بند تھا اور لیپ ٹاپ چوری ہو گیا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ واقعہ زمان پارک میں ہوتا ہے اور عذاب جی سی یونی ورسٹی پر ٹوٹ پڑتا ہے اور تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی جاتی ہیں۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ انفرادی خرابی کو خرابی تسلیم کیا جاتا ہے مگر اجتماعی خرابی فیشن قرار پاتی ہے۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ ہماری معصومیت معاشرے کی کثافت سے اس قدر ملوث ہو گئی کہ اپنی اصلیت مٹا بیٹھی۔ اور اب اس کی تلاش میں صدیوں سے در در کی خاک چھاننے میں سر گرداں ہے۔ مگر جوں جوں علمیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ اپنی اصلیت سے مزید دور ہوتی جاتی ہے۔
میں اس سوچ میں محو اور پریشان ہوں کہ کیا یہ سب ازلی ہے یا زمینی۔ مجھے یہ فکر ہے کہ یہ زمینی ہے۔ اور زمینی چیز جب ایک بار وجود میں آ جاتی ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔