اس عشق کے سب ہیں اوکھے لانگے

یہ تحریر 2415 مرتبہ دیکھی گئی

جو کہانیاں، صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے چولے بدل بدل کر ہم تک پہنچی ہیں، ان میں حقیقت تلاش کرنا کارِ لا حاصل ہے۔ ان میں اگر کوئی حقیقت تھی تو وہ افسانے کی صورت اختیار کر چکی اور جو افسانہ تھا، وہ مدتوں زبان زد خاص و عام رہنے کی بنا پر، حقیقت کے کسی مرتبے پر فائز ہو گیا ہے۔ اس یکجائی میں معاملات کو الگ الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں رہتا۔  نجم الدین احمد نے اپنے ناول میں ایسے ہی ایک موضوع سے سروکار رکھا ہے۔

نجم الدین احمد نے ادبی دنیا میں بطور شاعر قدم رکھا تھا۔ پھر افسانوں اور ترجموں کی طرف متوجہ ہوے۔ ان کے افسانے اور ترجمے معروف ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے دس بارہ سال پہلے ایک چھوٹا سا ناول لکھا تھا۔ ”کھوج“ ان کا دوسرا ناول ہے اور نقاش نقشِ ثانی بہتر کشد ز اول کی مثال ہے۔

”کھوج“ ایک نوجوان کی کہانی ہے جو سسی پنوں کا قصہ سن کر سسی پر فدا ہو گیا۔ اس عشق کا بیج اس کے دل میں باپ نے بویا۔ نوجوان کا نام شہزاد ہے۔ جب اس نے لڑکپن میں باپ سے پوچھا کہ ”آپ کو کون سا قصہ پسند ہے؟“ تو باپ نے سسی پنوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ”اس قصے میں بہت سے اسرار ہیں اور یہ عشقِ حقیقی کے قریب بھی بہت ہے۔ سسی پنوں کو دیکھے بنا ہی محض اس کی خوبروئی اور مردانہ وجاہت کے بارے میں ایک اجنبی سے سن کر اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ یہی حال پنوں کا ہوتا ہے۔ وہ بھی سسی کے حسن و جمال کا حال اس اجنبی سے جان کر بغیر دیکھے اس پر عاشق ہو جاتا ہے۔“ باپ نے یہ بھی کہا کہ دونوں ایک ہی قبر میں دفن ہیں۔ اس قبر کو مختلف مقامات پر موجود بتایا جاتا ہے۔ لیکن معلوم نہیں کہ اصل قبر کہاں ہے۔

شہزاد رفتہ رفتہ عام حقائق کی دنیا سے کٹتا چلا جاتا ہے۔ روز مرہ کی تکرار بھری، بے مزہ زندگی سے وہی لوگ نباہ کر سکتے ہیں جن کے دل حیرت اور حسرت سے خالی ہو چکے ہوں۔ وہ کولھو کے بیل کی طرح چکر کاٹتے رہتے ہیں اور اپنے دن پورے کر کے خاک میں مل جاتے ہیں۔ معمولی کام کاج کی دنیا، روزگار کی یکساں مشقتی دنیا، شہزاد کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔

سسی نے اس کے تخیل کو جکڑ لیا۔ اسے لگا کہ وہ اسے بلا رہی ہے کہ آؤ، مجھے ڈھونڈو۔ شہزاد ایک دن گھر سے نکل جاتا ہے اور واپس نہیں آتا۔ سسی کی اصل قبر کہاں ہے؟ یہ تلاش اسے بستیوں اور ویرانوں میں لیے پھرتی ہے۔ وہ عالمِ خیال میں سسی سے ملتا اور ہم کلام ہوتا ہے۔ لیکن عالم خیال تو زمینی اور زمانی حدود سے ماورا ایک بے کراں مقام ہے جہاں کسی اور کو ڈھونڈنا تو کجا خود اپنا سراغ نہیں ملتا۔

اس آوارہ گردی کا نتیجہ نارسائی اور گم نامی ہے۔ نہ سسی کی قبر کہیں ہے اور نہ سسی سے جسمانی سطح پر ملاقات ہو سکتی ہے۔ شہزاد، دیوانہ وار، جذب کے عالم میں، بھٹکتا پھرتا ہے۔ بیانیہ سیدھا نہیں چلتا۔ آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے۔ صحرا کے مناظر اور شہزاد کے واہموں کو بیان کرنے میں ہنر مندی کا ثبوت دیا گیا ہے۔

یہ اچھا ہے کہ شہزاد کو یک رخا کردار نہیں دکھایا۔ وہ عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرنے سے باز نہیں آتا اور انھیں پھنسانے کی ترکیبوں سے بھی آشنا ہے۔ ایک دفعہ، جب ضرورت پڑتی ہے تو رقم چوری کرنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ معلوم نہیں اس حرص و ہوس اور دنیوی ہوش مندی کو کس نظر سے دیکھا جائے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غرض مند دیوانہ ہوتا ہے۔ شہزاد ان افراد میں شامل ہے جو، جب وہ کسی نہ ختم ہونے والی طلب کے اسیر ہو جائیں، عام اخلاقیات کو خاطر میں نہیں لاتے۔

شہزاد کی انفرادیت میں خود غرضی کا پہلو نمایاں ہے۔ اسے کبھی کبھار گھر بار یاد آتا ہے لیکن پلٹنے کی آرزو پنپنے نہیں پاتی۔ جس کھکھیڑ سے وہ گزرا ہے اس کے بعد واپس جانے یا نہ جانے کے کوئی معنی نہیں رہتے۔ اس انفرادی جنون کا کوئی اجتماعی یا معاشرتی پہلو نہیں تو نہ سہی۔ البتہ یہ گہری محویت، خود سپردگی، فنا کی طرف کھچے جانے کی اذیت ایسی ہے جس سے دوچار ہو کر شہزاد پر حیران تو ہوا جا سکتا ہے لیکن ہم دردی کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ ”کھوج“ کو رومانی ناول قرار دینا بھی غلط ہو گا کہ یہاں حسن کا خیال حقیقی بد نمائی سے دست و گریباں ہے۔

نجم الدین احمد قصے میں دل چسپی برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ اگر ناول میں کچھ کمی نظر آتی ہے تو یہ کہ کہیں کہیں زبان و بیان پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ یہ ایسی خامی نہیں جس پر قابو نہ پایا جا سکتا ہو۔

کھوج از نجم الدین احمد

ناشر: القا پبلی کیشنز، لاہور صفحات:۴۵۲؛ ۵۹۶ روپیے