اردو شاعری اور انگریزی ادب

یہ تحریر 2690 مرتبہ دیکھی گئی

الیاس عشقی کا پی ایچ ڈی کا تھیسس “اردو شاعری پر مغرب کے اثرات”ؔ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کا بہتر عنوان “اردو شاعری پر انگریزی شاعری کے اثرات” ہوتا۔ انیسویں صدی میں اردو خواں طبقے کو دوسری یورپی زبانوں کے شاعروں کا کچھ علم نہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تھیسس الیاس عشقی صاحب نے خوش دلی سے نہیں لکھا۔ شاید مکروہات زمانہ، معاشی مجبوریوں اور ملازمت کے تقاضوں نے انھیں یکسوئی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ دیر پر دیر ہوتی رہی۔ آخر کسی نہ کسی طرح انھوں نے تھیسس کو ٹھکانے لگا دیا۔

جیسا کہ دستور ہے اردو میں لکھے جانے والے ان بیشتر تھیسسوں میں، جو اٹھارویں یا انیسویں صدی کے ادب سے متعلق ہوں، پہلے باب میں لازماً سیاسی اور سماجی حالات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہ محقق پہلے سے لکھی ہوئی باتوں کو دہرا دینا کافی سمجھتے ہیں۔ اس سے زیادہ کی ان سے توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے۔ الیاس عشقی نے اس موضوع پر زیادہ صفحے ضائع نہیں کیے۔ غالب کی اس تقریظ سے آغاز کیا ہے جو انھوں نے سر سید کی فرمائش پر “آئین اکبری” کی تدوین پر لکھی تھی اور جس میں کہا گیا تھا کہ خبردار رہو، جس مستقبل سے سامنا پڑنے والا ہے اس کی کوئی نظیر پہلے نہ ملے گی۔

یہ بھی نہیں کہ الیاس عشقی نے اٹھارویں یا انیسویں صدی کے پس منظر پر بہت کم توجہ دی ہو۔ مگر اس حصے میں بے ربطی خاصی ہے۔ بعض باتوں کا نہ شاعری سے تعلق ہے نہ ادب سے۔ بے پروائی کا یہ عالم ہے کہ 1857ء  کے شہدا میں صہبائی کے علاوہ شیفتہ کو بھی شامل کر دیا ہے۔ شیفتہ 1857ءکے دس بارہ سال بعد فوت ہوئے تھے۔ ان کی موت طبعی تھی۔

برصغیر کے لوگ انگریزوں کی روز افزوں بالادستی سے پریشان تھے۔ 1857ء کی جدوجہد، جو شمالی ہندوستان تک محدود رہی، انگریزوں کو بہ زور شمشیر ہندوستان سے بے دخل کرنے کی آخری کوشش تھی۔ اس میں اہل ہند، بالخصوص مسلمان، ناکامی سے دوچار ہوئے۔

بس بے بسی اور پسپائی کے عالم میں جب انھوں نے اپنی شکست کو وجوہ پر غور کیا تو بہت سوں کی سمجھ میں یہی آیا کہ انگریز سیاست، حربی مہارت، تہذیب، علم و ہنر اور ادب میں ہم سے آگے ہیں اور اگر ان سے کسی سطح پر مقابلہ کرنا ہے تو پرانے طرزِ فکر کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ اپنانی پڑے گی۔

انگریزی ادب سے براہِ راست شناسائی بہت کم تھی۔ لہٰذا سنی سنائی باتوں اور ادھورے طور پر سمجھے ہوئے خیالات کا سہارا لیا گیا۔ مرعوبیت کا یہ حال تھا کہ زیادہ سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگر حالی، شبلی، نذیر احمد، محمد حسین آزاد کی تصنیفات آج بھی بامعنی ہیں تو اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ عربی ادب سے شناسائی بہت گہری تھی  یعنی کم از کم دو تین ادبی روایتوں کے جوہر کو اپنے میں جذب کیے ہوئے تھے۔

فطرت یا فطری مناظر کی تصویر کشی پر جو زور دیا گیا تھا وہ بھی انگریزی شاعری کو نہ پڑھنے کا نتیجہ تھا۔ کسی بھی اچھے انگریز شاعر نے قدرتی مناظر کی عکاسی پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ یہ کام تو کیمرا بڑی عمدگی سے انجام دینے لگا تھا۔ ہر نظم میں جہاں فطرت کا ذکر ہے۔ دکھایا یہ گیا ہے کہ شاعر کی اپنی طبیعت یا داخلی موڑ کس حد تک سامنے کے منظر سے ہم آہنگ یا متصادم ہے۔ محض لفاظی سے کام نہیں چل سکتا۔ دوسرے یہ کہ نظم کی عمدہ مثالیں اردو میں پہلے سے موجود تھیں اور ان سے استفادہ کیا جا سکتا تھا۔

الیاس عشقی نے کتاب میں تقریباً ان تمام نظموں کا ذکر کیا ہے جو یا تو انگریزی کے تتبع میں لکھی گئیں یا انگریزی نظموں کا ترجمہ تھیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر ترجمے دوسرے تیسرے درجے کے شعرا کے کیے گئے۔ معلوم نہیں ایسا کیوں ہوا۔ بہرکیف، کتاب میں بہت سی معلومات اکٹھی کر دی گئی ہیں اور متعدد اردو شعرا کے کلام کا اس نظر سے جائزہ لیا گیا کہ وہ کس حد تک انگریزی یا مغربی شاعری سے متاثر ہے۔

پروف خوانی پر مطلق توجہ نہیں دی گئی۔ انگریزی اور فارسی کی غلطیاں تو بہت ہیں، اردو متن بھی درست نہیں۔ یہ الیاس عشقی صاحب کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر ان کی مزید تصانیف شائع کرنے کا ارادہ ہے تو کم از کم پروف پڑھنے پر پوری توجہ دی جائے۔

اردو شاعری پر مغرب کے اثرات از الیاس عشقی

ص: 480 

500 روپیے

ناشر: ادراک پبلی کیشنز، حیدر آباد