سورج میرے آنگن کی دیوار سے جھانکتا ہے
ایڑیاں اٹھا کر،
کمر میں اِیستادگی بھر کے
اور پھر جسم ڈھیلا چھوڑتے ہی
دیوار کے اُس پار دھم سے گِر جاتا ہے
دیوار کے اُفُق پر جھومتی بیری کی شاخ پر
تاروں کی سہمی ہوئی آنکھیں قہقہہ لگا گر ہنستی ہیں
رات گویا، اسی آہٹ کی منتظر تھی
مُنڈیر پر چاند
چاندنی کی پوروں سے بیری کے اُلجھے بال سنوارتا ہوا
انگلیاں زخمی کر لیتا ہے
بیری سرگوشیوں کی زبان میں ہوا سے باتیں کر رہی ہے
سایہ تنہائی دور کرنے کی کوشش میں
سُکڑنے پھیلنے کی اداکاری کر کے
پیڑ کی توجہ پا لیتا ہے
سائے کی بات سنتے ہوئے چاند نظر سے کب گِرا
اور گھپ اندھیر
دیوار کے پار بیروں کی اور آنگن میں پتھروں کی بارش
تارے اور پات ایک ساتھ جھڑے
اور پیڑ آنگن کی پناہ سے بیزار ہو گیا
آنگن کی پناہ
یہ تحریر 154 مرتبہ دیکھی گئی