شور جو مجھ میں بپا ہے تم اُسے کیا سمجھو کبھی گنبد میں صدا دو ...

O زندگی مرگِ مفاجات ہے حُکمِ حاکم اپنی مرضی سے یہ بیڑی نہیں پہنی ہم ...

O اب اے دلِ زار یہ بھی کیا ہے ہر چیز کی یادگار رکھنا ہر ...

O لوگوں کو یقیں قصّہءِ موسٰیؑ پہ نہیں ہے رستے تو کئی اب بھی سُوئے ...

O رات بھر آسماں پہ جاگتے ہیں مُجھ سے بیزار ثابت و سیّار روز رہتی ...

O آج پھر ذہن میں یکجا ہیں زمانے تینوں اے زباں بول کہ لب سے ...

O کہاں گئے وہ زمانے کہ آدمی کے لیے فروغِ جلوہ باطن اصول ہوتا تھا ...

O اک بات کہی، کہنے کے لیے بہتے رُخ پر بہنے کے لیے موجوں کا ...

لہو پھر مرا گنگنانے لگا پُرانے ترانے سنانے لگا اُگا ذہن میں اک شجر سایہ ...

O دل ہے تو دل کو ساتھ تمھارا بھی چاہیے اِس انجمن کو انجمن آرا ...