غزل

یہ تحریر 392 مرتبہ دیکھی گئی

لہو پھر مرا گنگنانے لگا
پُرانے ترانے سنانے لگا

اُگا ذہن میں اک شجر سایہ دار
لہکنے لگا، لہلہانے لگا

کُھلا آج مجھ سے مرا چارہ گر
مجھے زخم اپنے دکھانے لگا

سنا دی اُسے آج اپنی غزل
چلو یہ ہنر تو ٹھکانے لگا

ہوا پھر سے خورشید گرمِ سفر
ستاروں کی شمعیں بجھانے لگا