غزل

یہ تحریر 350 مرتبہ دیکھی گئی

O

لوگوں کو یقیں قصّہءِ موسٰیؑ پہ نہیں ہے
رستے تو کئی اب بھی سُوئے طور کُھلے ہیں

کچھ رنگ کُھلے دل کے گناہوں کی ہوس میں
کچھ ہوکے پسینے میں شرابور کُھلے ہیں

یہ بند اگر ہوں تو رگِ جاں نہ رہے گی
ہم زندہ ہیں جب تک کہ یہ ناسور کُھلے ہیں

اُڑنے کا مزا کیا ہے غریبی کی فضا میں
پر آکے نشیمن سے بہت دور کُھلے ہیں

کب کھول کے رکھی ہے کہیں دل کی جراحت
کب چارہ گروں سے ترے رنجور کُھلے ہیں