غزل

یہ تحریر 387 مرتبہ دیکھی گئی

O

کہاں گئے وہ زمانے کہ آدمی کے لیے
فروغِ جلوہ باطن اصول ہوتا تھا

نہ صوفیوں میں وہ روشن ضمیر ہیں جن کے
لبوں سے جو بھی نکلتا، قبول ہوتا تھا

نہ جوگیوں میں وہ کامل فقیر ہیں جن کی
زباں پہ سرسوَتی کا نزول ہوتا تھا

نگہ پیام برِ صدقِ حال ہوتی تھی
سُخن زباں پہ دلوں کا رسول ہوتا تھا

نہ تھی خلیج کوئی ظاہر اور باطن میں
نہ حرف سے کوئی معنی ملول ہوتا تھا

سماعتوں میں جواہر اُتارے جاتے تھے
لہو میں روشنیوں کا حلول ہوتا تھا