غزل

یہ تحریر 362 مرتبہ دیکھی گئی

O

رات بھر آسماں پہ جاگتے ہیں
مُجھ سے بیزار ثابت و سیّار

روز رہتی ہے دل میں آخرِ شب
میرے باطن کی بے اماں یلغار

روز پو پھوٹتے ہی کرتا ہوں
آپ اپنے وجود کا انکار

صبح دم گلستاں میں شبنم سے
گریہ کرتے ہیں، روبرو، گُل و خار

ثابت آئینہ ہو تو رہتی ہے
دل میں پیہم شکست کی جھنکار

ٹوٹ جائے تو کیا نکلتا ہے
ایک موجِ غبار پیشِ غبار

کٹ گئے راستے کے سارے شجر
ہاتھ ملتی پھرے ہے بادِ بہار

ہم کو تارِ نفس ہے مثلِ رسن
صورتِ دار حُسنِ قامتِ یار