O نہیں ہے جب سے ترا التفات میرے لیے شکن شکن ہے جبینِ حیات میرے ...

O اِس جہاں سے کہ اُس جہاں سے آئی خاک میں روشنی کہاں سے آئی ...

O حرف میں مہک نہیں آنکھ میں سخن نہیں انجمن میں اب کہیں کیفِ انجمن ...

رہوں خموش تو جاں لب پہ آئی جاتی ہے جو کچھ کہوں تو قیامت اُٹھائی ...

O حاصلِ وصل ہے فراق پھر بھی ابھی نہ جایئے آپ مرے چمن میں ہیں ...

پھول بزمِ ناز میں پہنچے گلستاں چھوڑ کر ”کوئے جاناں کو چلے آہو بیاباں چھوڑ ...

کون سے نُور کی زد پر ہے کہ شب کٹتی ہے تیری آمد کے قرینے ...

O جانے کس کے کھوج میں پھرتا ہے بے کل آدمی آدمیّت سے گریزاں ہے ...

O جو دل میں گونجتی ہے بات وہ کہنے نہیں دیتی مگر دنیا مجھے خاموش ...

O ساتھ دوں گا عمر بھر پل بھر کا دیوانہ نہیں میں تو شعلہ ہوں ...