باسودے کی مریم

یہ تحریر 3576 مرتبہ دیکھی گئی

پتا نہیں کیوں ”باسودے کی مریم“ پر لکھتے ہوئے کسی بھی تنقیدی اصطلاح کا استعمال زائد لگ رہا ہے۔ زائد تو ایک طرف اسے جسارت کہنا چاہیے، جسارت، شاید کچھ کہانیاں ہوتی ہی ایسی ہیں کہ اُن کے ساتھ دُم چھلے اچھے نہیں لگتے، تنقیدی اصطلاحات کے دُم چھلے۔ جن کا جابجا استعمال بوجھل ہو جاتا اوریہاں شاید مریم جیسا معصوم کردار ان کا بوجھ سہار نہیں سکتا۔ اور پھر اس کہانی کو ایک دل آزار شخص ا م خ نے کس لاگ اور لوچ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ الامان! الامان! الامان!

جس طرح سے لکھنے والوں کی قسمیں ہوتی ہیں، اسی طرح پڑھنے والوں کے بھی قبیلے ہوتے ہیں۔ ہر قبیل کا اپنا لکھاری ہوتا ہے۔جس کا جیسا عمل، اُس کا ویسا اَجر۔ اتاولے قارئین چوکوں چھکوں والی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ جن میں واقعات تیزی کے ساتھ ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور آخر میں ایک فیصلہ سامنے آجاتا ہے کہ ظالم کو ن تھا، اور مظلوم کون ہے، اور یہ کہ ہر کسی کو اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

مگر صابر قارئین کا معاملہ دوسرا ہے۔ صابر قارئین جن لکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں، وہ اُن سے ٹھیک ٹھاک کشٹ کرواتے ہیں۔ تب کہیں جا کر اُن کی مراد پوری ہوتی ہے اور اپنے پسندیدہ لکھنے والے کی تخلیقی دنیا میں داخلہ ممکن ہوتا ہے۔ مگر یہ داخلہ مشروط ہوتا ہے۔ ایسانہیں کہ آپ اس دنیا میں جس طرف چاہیں گھومیں جِدھر دل کیا اُدھر نکل گئے۔ سو اسد محمد خاں صابر قارئین کا افسانہ نگار ہے۔ یہ فیصلہ نہیں ایک رائے ہے۔

آج جب ”باسودے کی مریم“ پر یہ آڑی ترچھی لکیریں کھینچی جارہی ہیں تو خیال آتا ہے کہ اس افسانے میں آنے والے کردار کتنے بھلے مانس اور بیبے لوگ تھے۔ آج کل کے لوگوں سے کتنے مختلف۔ آج تو گلی گلی کافر اور کافر بنانے والے کارخانے لگے ہوئے ہیں۔ مگر مریم کو زندہ رہنے کے لیے جو سماج ملاوہ برداشت والامعاشرہ تھا۔ اسد محمد خاں نے مریم کے کردار کی مدد سے ایسے زمانے کی تصویریں دکھائی ہیں جس میں ہر آدمی کو اپنی شرائط پر زندگی گزارنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہاں تو ہر ایک اپنے اپنے مدار میں زندگی گزار رہا ہے۔

کوئی بھی تو کسی پر بوجھ نہیں۔ مریم اپنی آزادی کے ساتھ ہرکسی کی آزادی کا خیال رکھتی ہے۔اگر بچوں کو محرم میں حسنؑ اور حسینؑ کے فقیر بناتی ہے تو اس ہدایت کے ساتھ کہ:”دیکھ رے بیٹا! بڑے میاں جی کے سامنے متی جانا۔“وجہ اس کی یہ ہے کہ بڑے میاں وہابی خیالات کے آدمی تھے۔ اور اس عمل سے شاید اُن کے عقیدے پر کسی قسم کی کوئی آنچ آئے۔ مگر بڑے میاں کا کردار بھی حوصلے والا کردار ہے۔ مریم جب ایک سال محرم کے دنوں میں باسودے چلی گئی تو بڑے میاں لڑکوں کو کھیلتے دیکھ کر ہدایت کرتے ہیں کہ تم حسن اور حسین کے فقیر ہو۔ بڑھیا نہیں ہے تو کیسا اُدھم مچا رکھا ہے۔ کم از کم بیٹھ کر آدمیوں کی طرح یٰسین شریف پڑھو۔

”باسودے کی مریم“ کی کہانی اسد محمد خاں نے مریم کے سفر حج کی جستجو کے گرد بُنی ہے۔ مریم جو مرکزی کردار کے گھر میں تین پشتوں سے خدمت کر رہی ہے۔ یہاں پوری کہانی میں آپ کو خادمہ کا لفظ نہیں ملے گا۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ماضی میں چیزوں اور لوگوں کو پرکھنے کا معیار خالصتاً اُن کی باطنی صداقت اور اچھائی ہوا کرتا تھا نہ کہ آج کے بے برکت معاشرے میں انسانوں کو پیشوں کی بنیاد پر جانچنے کا عمل۔ یعنی اگر آپ اپنی گھریلو خدمات کے عوض معاوضہ حاصل کر رہے ہیں تو آپ کو کمی کمین اور گھٹیا سمجھا جائے گا۔

”باسودے کی مریم“ کی کہانی کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے۔

”مریم کے خیال میں ساری دنیا میں تین ہی شہر تھے۔ مکہ، مدینہ اور گنج باسودہ۔ مگر یہ تین تو ہمارا آپ کا حساب ہے، مریم کے حساب سے مکہ،مدینہ ایک ہی شہر تھا۔ ”اپنے حجور کا سہر“ مکے مدینے سریپ میں ان کے حجور تھے اور گنج باسودے میں ان کا ممدو۔“

کہانی کے آغاز میں ہی کہانی کار نے کہانی کا حدود اربعہ طے کر دیا ہے۔پوری کہانی اس اقتباس کے گرد گھومتی ہے مگر مجال ہے جو کہیں بیان میں بے لطفی آنے دی ہو۔ کوئی پیرا تو ایک طرف کوئی جملہ زائد ہو۔ حالانکہ ایسے حالات میں جب بیانیہ محدود ہو تو کہانی کار کا واقعات کو دہرانا مجبوری بن جاتا ہے۔ ان نکات کے بیان سے پہلے اختصار سے کہانی بیان کر دینی چاہیے تاکہ کہانی کا پورا طیف ہماری سمجھ میں آسکے۔تو جیساکہ بیان ہوا کہ مریم راوی /بیان کنندہ (اب کیا کِیا جائے یوسا راوی نام کی کسی چیز کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ اُن کے نزدیک بیانیہ ہی راوی ہے۔ راوی الگ سے کوئی شے نہیں)۔ خیر یہ تنقیدی منطق تو یہاں بیان کرنا نہیں ورنہ آسانی سے دو چار صفحے اس ذیل میں بیان کیے جا سکتے ہیں جن کے بیان سے مریم جیسا معصوم، سادہ، سچا کردار کوفت محسوس کرے گا اور میں مریم کی خوشی میں خوش رہنا چاہتا ہوں۔

تو بیانیہ میں مریم ایک خاندان کی تین پشتوں سے خدمت گار ہے۔ مریم کی زندگی مکہ، مدینہ، گنج باسودہ، جہاں اُس کا بیٹا ممدو رہتا ہے اور یہ گھر جس میں مریم خدمت کر رہی ہے اہم جگہیں ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ مریم کو مکہ، مدینہ دیکھنے کی لگن ہے۔ اس لگن میں مگن وہ مرکزی کردار کے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزار رہی ہے۔ مکہ دیکھنے کی لگن میں مریم آنہ آنہ اکٹھا کرنا شروع کر دیتی ہے کہ اُس کے پاس اتنے پیسے اکٹھے ہو جائیں کہ وہ حج پر جا سکے۔ اتنے میں ایک عجیب واقعہ ہوتا ہے کہ اُسے اپنے بیٹے ممدو کی بیماری کی خبر ملتی ہے۔ مریم سب کچھ چھوڑ چھاڑ باسودے اپنی جمع پونجی سمیت پہنچ جاتی ہے۔ ممدو تو نہیں بچتا مگر مریم کی ساری جمع پونجی خرچ ہو جاتی ہے۔ مریم لُٹی پٹی واپس آتی ہے اور اس طرح کے خیالات اُس کے دامن گیر رہتے ہیں۔

”رے حرامی تیرا ستیا ناس جائے رے ممدو! تیری ٹھٹھری نکلے۔ اورے بدجناور تیری کبر میں کیڑے پڑیں۔ میرے سبرے پیسے خرچ کرا دیے۔ اے ری دُلھین! میں مکے مدینے کیسے جاؤں گی۔ بتاری دُلھین! اب کیسے جاؤں گی؟ اور پھر ایک دِن مریم مکہ مدینہ دیکھے بغیر اس وصیت کے ساتھ دوسری دنیا چلی جاتی ہے کہ

”عذاب ثواب جائے بڑی بی کے سر، میاں ہم نے تو ہرے بھرے گنبد کی طرف منہ کر کے کئی دیاکہ یا رسول اللہ! باسودے والی مریم فوت ہوگئیں۔ مرتے وخت کہہ رئی تھیں کہ نبیؐ جی سرکار! میں آتی ضرور مگر میرا ممدو حرامی نکلا۔ میرے سب پیسے خرچ کرا دیے۔“

کہانی کے اختتامی اقتباس کو پڑھتے ہوئے ایک درد کی ٹیس سی نکلتی ہے۔ کاش مریم اپنی خواہشیں پوری کر سکتی۔

ہم نے پہلے بیان کر دیا کہ بیانیہ لمبا چوڑا نہیں اس لیے اس کو نبھانا آسان نہیں تھا۔ اسد محمد خاں کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی چھوڑی ہوئی جگہوں، اپنی ذات کے ساتھ وابستہ کرداروں کے ساتھ رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ وابستگی کا فیض ہے کہ مریم کے مکالمے کس لوچ کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ شاید اس کہانی کا سارا رس ہی مریم کی من موہنی زبان میں چھپا ہوا ہے جسے اسد محمد خاں نے کمال مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اسد محمد خاں اپنے ماضی کوفراموش نہیں کرتے بلکہ اُس کی بازیافت کرتے نظر آتے ہیں۔ اور اس عمل میں اُن کا حافظہ اُن کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ حافظے اور حقیقت کے بیان کی ذیل میں محمد سلیم الرحمن صاحب کا یہ اقتباس اسد محمد خاں صاحب کے فکشن کو جاننے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔

”حقیقت کو بھانپنے کی حِس اسد محمد خاں میں بہت قوی ہے۔ اس بات کی صداقت ان کے تیز مشاہدے اور مکالموں کو سن کر بخوبی یاد رکھنے کی صلاحیت سے ثابت ہے۔ لیکن وہ جانی پہچانی دنیا کو اس طرح سامنے نہیں لاتے جیسے کسی تیکھے ماسکے والے عدسے سے تصور اُتاری گئی ہو۔ حقیقت نیم متحرک خاکوں کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے۔“

یاد ہی تو واحد اسم اعظم ہے جس کے بغیر کہانی کار تو ایک طرف کسی بھی تخلیقی فن کار کا کام نہیں چلتا۔ اور اسد صاحب کے پاس یاد کا سہارا مالک کی ایسی عطا ہے جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔ مگر یہ بات یاد رہے کہ یاد تو ایک آسرا ہے کہانی بیان کرنے کا، اس بیان میں اور بھی کئی وسیلے دامن گیر رہتے ہیں۔ آخر یاد اپنا اظہار کرے گی تو کسی نہ کسی لفظ کی صورت میں۔ پھر پتا چلا کہ زبان یاد کے ساتھ ایک بڑا عنصر ہے۔ کہانیاں لفظوں کا کھیل ہی تو ہوتی ہیں۔ ایک لفظ اِدھر سے اُدھر کر دو، کھیل کا سارا فریم بگڑ جائے گا۔

اسد صاحب زبان کے کھیل سے خوب واقف ہیں۔ اپنے کرداروں کے ساتھ چومکھی لڑتے ہیں۔ مجال ہے کہانی کی کوئی چُول ڈھیلی ہو۔ وہ جو مارکیز کہتا ہے کہ تخلیق کار ایک بڑھئی ہوتا ہے تو اس بات کی سمجھ اسد صاحب کا فکشن پڑھ کر آتی ہے۔

”باسودے کی مریم“ میں اسد محمد خاں نے مریم کے کردار کو سنبھال کر لکھا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جس کردار کے ساتھ آپ کی جذباتی وابستگی ہو آپ اُس کے مکالمے لکھتے ہوئے ڈول جاتے ہیں۔ عقیدت کا وفور اپنا کام دکھا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایسا ہرگز نہیں۔ مریم کے کردار میں توازن ہے۔ ”باسودے کی مریم“ کی تمام فضا اتنی انبساط انگیز ہے کہ موضوع کی طرف خیال ہی نہیں جاتا۔ پھر موضوع جتنا مرضی بڑا ہے اُس کا برتاؤ عمدہ نہیں ہے تو وہ تحریر چاروں شانے چت ہو جاتی ہے۔ موضوعاتی تحریکوں کے زیر اثر لکھی جانے والی تحریریں تھوڑا دان کرتی ہیں زیادہ چھین لیتی ہیں۔ اس کا مظاہرہ ہم نے ان تحریکوں کے تحت لکھے جانے والے ادب میں خوب دیکھا۔ اسد محمد خاں ان چکروں میں نہیں پڑتے۔ وہ تو اپنے ماضی، اپنے علاقے، اپنے لوگوں، اپنی بستیوں کو سینے سے لگائے رکھنے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر ساری چیزوں، سارے مسئلوں کو گود لے کر حل کرنا اچھا بھی نہیں ہوتا۔

آپ ان باتوں کو چھوڑ چھاڑ کر ایک دفعہ ”باسودے کی مریم“ کو پھر سے پڑھیں۔ اور دیکھیں کہ اس کو کسی وکالت کی ضرورت نہیں۔ یہ کہانی آپ کو چپ چاپ مکے، مدینے اور گنج باسودے کی گلیوں میں لے جائے گی۔ جہاں معصوم مریم اپنی خواہشوں کی کرچیاں تلاش کر رہی ہے۔ اپنی بے باکی سے سارے گھر میں عزت کما رہی ہے، اپنے معصوم مکالموں سے قاری کے دل میں جگہ بنا رہی ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو مریم جیسے کرداروں کی ضرورت ہے۔ جو نہ شیعہ ہے نہ سنی، وہ تو بس مریم ہے اور صرف مریم، باسودے والی۔ اللہ کی بندی، رسول کی اُمتی، حسنؑ حسینؑ کی حُب دار۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی مانت، وہ کسی شیعہ، بریلوی، دیوبندی کو نہیں جانتی، مریم اچھا ہی کرتی ہے کیونکہ مذہب کے ان اُونچے دروازوں میں آج کل ذبیحہ خانے کھلے ہوئے ہیں۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/