غزل

یہ تحریر 236 مرتبہ دیکھی گئی

نقش ہے دل پہ چار سو تیری پھبن تیری مہک
یاد میں کھب چکی مری تیری ادا تری بھڑک

ساتھی سبھی چلے گئے ، شہر ہے خامشی میں گم
خواب نما یہ چاندنی ، خالی پڑی ہوئی سڑک

تھوڑی سی اک امید پر میں نے بڑھائے ہیں قدم
وقت بہت رہا ہے کم تو نہ اب اس قدر جھچک

اور تو کچھ بچا نہیں بازیِ عشق ہار کے
خون کی ایک بوند سی دل میں کہیں گئی اٹک

کوئی نہیں ہے اب یہاں ہم نفس ہو یا ہم قدم
ویراں پڑے ہیں کوہ و دشت ان میں نہ رات دن بھٹک

پھر اسی شہر کا خیال ، تیری گلی کی وہ کشش
خوار و ذلیل ہو کے بھی دل میں ہے آج بھی کھٹک
تشنہ ہیں گوش اب تلک ، مدت ہوئی سنے ہوئے
لہجے سے جس کے تھی عیاں ایک عجیب سی لٹک

مجلسِ دوستاں سہی ، مجمعِ دشمناں سہی
کہتا رہ تو یونہی غزل ہرگز نہ لمحہ بھر ٹھٹک

معرکہ¿ جہانِ نو ہے ترا منتظر سہیل
پچھلے رواج و رسم کو دامن سے آج دے جھٹک

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/