بیادِ کُلفتِ ایامِ زِنداں

یہ تحریر 2145 مرتبہ دیکھی گئی

جوناتھن بَیچمین (Jonathan Bachman) کی 2016 میں Reuters ایجنسی کے لیے بنائی گئی معروف تصویر Taking a Stand in Baton Rouge سے فیض کے کئی اشعار یاد آئے۔ سفید فام پولیس کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہونے والے سیاہ فام نوجوانوں کی موت پر خاموش احتجاج کرتی نرس Ieshia Evans کی گرفتاری کی تصویر دیکھ کر یوں لگا جیسے اپنے حق کے لیے غاصب کے سامنے چٹانی عزم کے ساتھ ڈٹی سیاہ فام عورت ہی فیض کی انقلابی شاعری کا موضوع ہو، اور یوں بھی کہ فیض، ناظم حکمت، نزار قبانی، پابلو نرودا، محمود درویش اور ان کی صف کے دیگر شعراء نے فرد کی آزادی کی جو جوت جگائی، یہ خاتون اُسی انقلابی سوچ کی تجسیم ہے۔ جابر کی بندوق کے مُقابل، فلسطینی شاعر محمود درویش کی “ریتا” یقیناؑ ایسی ہی ہو گی:

بين ريتا وعيوني .. بندقيهْ
(Between Rita and my eyes — A rifle)

جوناتھن بیچمین کی تصویر جدید ویژوَل کلچر کے سیاسی اثرات کے طور پر بھی خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس تصویر کی اہمیدت یہ تھی کہ سماج کے ہر حلقے میں اس پر بحث ہوئی۔ سیاہ فام امریکیوں کے نقطہ نظر کو تشخص کی جنگ میں اس تصویر کی اشاعت سے تقویت ملی۔ اُن کو ریڈانڈین قبائل کی طرح مِٹایا تو نہیں جا سکا لیکن سماجی اور اقتصادی پسماندگی کا شکار ضرور رکھا گیا۔ ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد کا مصرعہ “ھمہء ہستیِ من آیئہ تاریکیست (میری تمام ہستی تاریکی کی تمثیل ہے) سیاہ فام امریکیوں کی تیرہ ستم زندگیوں کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ محمود درویش اپنی نظم “عورت” میں لکھتے ہیں:

تم واحد چیخ ہو
اور تم ہو واحد خاموشی

میرے لیے سفید فام پولیس کے سامنے سینہ سپر Ieshia Evans نہ صرف سیاہ فام امریکیوں، بلکہ امریکی ہدف پر تمام انسانوں، عقیدوں اور نظریات کی خاموش چیخ کی علامت ہے۔

سیاسی نقاد Slovaj Zizek کے نذدیک آزاد ریاست کا صرف ایک ہی معیار ہے۔ کیا ریاست اپنے عوام کے بُنیادی سیاسی، سماجی اور مذہبی عقیدے کا احترام کرتی ہے؟ کیا ریاست میں انصاف کے ادارے آزاد فیصلے کر رہے ہیں؟ کیا پریس بغیر ریاستی دباؤ کے خبر نشر کر رہا ہے؟ اور کیا ریاست اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر انسانی حقوق کی پاسداری کرتی ہے؟ لیکن عالمی ضمیر اور شعور کو جھنجھوڑنے والی اس تصویر پر مباحث کے دوران انکشاف ہوا کہ امریکہ میں نسلی بُنیاد پر انسانی حقوق کے معیار مختلف ہیں۔ سفید فام پولیس کے ہاتھوں مارے گئے پندرہ سے چونتیس سال کے درمیان سیاہ فام نوجوانوں کی تعداد پولیس مقابلوں میں مرنے والے دیگر افراد کے مقابلے میں نو گُنا زیادہ تھی۔ افریقی النسل امریکہ واضع طور پر نسل پرستی کے نشانے پر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی دانشور نوم چومسکی (Noam Chomsky) عہدِ حاضر کے امریکی نظامِ حکومت کو “ہراسیمگی کی تہذیب Culture of Terror” قرار دیتے ہیں۔ اُن کے مُطابق رونالڈ ریگن نے ریاست کو اپنی ہی رعایا اور اداروں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے کُھلے عام استعمال کیا۔ ایک اور کتاب Rogue State میں بھی وہ سنگ دِل ریاستی بدمعاشیہ کی ٹھگ بازی اور لوٹ مار کے پول کھولتے ہیں۔

میں اس عکس کو سیاہ فام امریکیوں کی مظلومیت کی بجائے اُن کی سیاسی جدوجہد کی تصویر کے طور پر دیکھتا ہوں۔ نرس Ieshia Evans کا کہنا ہے کہ “میں گرفتاری اور اس کے نتائج سے ہرگز خوف زدہ نھیں تھی، کیونکہ اب ہم پر مظالم کی حد ہو چُکی تھی۔” Ieshia Evans کے اٹل ارادے میں سیاہ فام امریکی شاعرہ Maya Angelou کی نظم کی بازگشت تھی: You may write me down in history
With your bitter, twisted lies,
You may trod me in the very dirt
But still, like dust, I’ll rise