عام زندگی کا نقش گر: محمد اظہر حفیظ

یہ تحریر 958 مرتبہ دیکھی گئی

محمد اظہر حفیظ کے نذدیک زندگی مظاہر قدرت کا مشاہدہ ہے اور فن اس مشاہدے کی تکمیل کا ایک ذریعہ۔ اس راہ گذر کی مسافرت میں اظہر نے اپنے غیر معمولی توکل کے ساتھ ساتھ کیمرے کو بھی زاد راہ کے طور پر ساتھ رکھا ہے۔ کیمرہ وہ آنکھ ہے جس سے وہ ذرے ذرے میں اپنے رب کی نشانیاں دیکھتا ہے اور کامل یقین سے ان کو تصویروں میں ڈھالتا ہے۔ کیمرے نے اسے زندگی اور اپنے ارد گرد سے انسیت کے مضبوط بندھن میں جوڑا ہوا ہے۔ وہ آپ کو شاذ ہی کیمرے کے بغیر دکھائی دے گا۔ اور ہر جگہ دکھائی دے گا۔

محمد اظہر حفیظ کی زندگی اور عکس کشی سے والہانہ وابستگی عشق رائیگاں نہیں رہی۔ اس فن نے اسے درویشی اور بے نیازی سے مالا مال کیا ہے۔ اس کی شخصیت اور کام کا سب سے نمایاں پہلو یہی ہے۔ آپ اس کی بنائی ہوئی تصویروں کے پس منظر میں، فن فوٹوگرافی پر اس کی بے ساختہ گفتگو میں یا متنوع موضوعات پر اس کی تحریروں میں ایک سادہ منش فقیر یا گیانی کی موجودگی کو باآسانی محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسے زاہدانہ بے باکی کے ساتھ تصویر و تحریر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے کسی بھی کام میں بناوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ نہ اسے عکس و لفظ کو بلاوجہ سنوار کر پیش کرنے کی پروا ہے۔ ناگوار حد تک مروج امیج ایڈیٹنگ کے عہد میں وہ اپنی تصویروں کے سادہ پن کی بنا پر ایک غیر معمولی عکس کار شمار نہیں ہوتا لیکن ایک غیرمعمولی سچا عکس کار ضرور رہا ہے۔ اسے آج بھی کھجور کے درخت کی پہلی تصویر یاد ہے جو اس نے کبھی لارنس گارڈن میں بنائی تھی۔ جی ہاں، محمد اظہر حفیظ کی تصویریں ایسی ہی سیدھی سادی ہوتی ہیں۔ اسلام آباد کے ٹریل فائیو کی کوئی بل کھاتی پگڈنڈی، گولڑہ شریف ریلوے سٹیشن کے خاموش پلیٹ فارم کا کوئی بینچ، بری امام درگاہ یا بھونگ کی مسجد کا کوئی گوشہ یا دھما دھم بھاگتی زندگی کی ہاہاکار سے دور اپنے آپ میں بس رہے عام لوگوں کی سندرتا کی کوئی جھلک۔ وہ کہتا ہے “تصویر وہی دکھاتی ہے جو سامنے ہوتا ہے۔ فوٹوگرافر وہی بات کرتا ہے جو سامنے کی ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں کو سیدھی سچی بات پسند نہیں آتی۔”

فن کی ان گنت جہتیں ہیں۔ کوئی ایک کلاکار اپنی کلا کے ہر پہلو پر پورا نہیں اتر سکتا۔ محمد اظہر حفیظ اس حقیقت سے مکمل آگاہ ہے۔ وہ اپنے عقیدے کی طرح اپنے فن کے بنیادی اصولوں پر پوری طرح ڈٹا ہوا ہے اور اس کا بھرپور پرچار کرتا ہے۔ پاکستان میں فوٹوگرافی کے نامور اساتذہ میں محمد اظہر حفیظ کا شمار بلاتامل کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک روایت پرست فن کار ہے اور فن و تخلیق کے بنیادی اصول اپنے تجربے کی روشنی میں نوجوان عکس کاروں کی راہنمائی کے لیے باقاعدگی سے قلم بند کرتا رہتا ہے۔
“فوٹوگرافی کی بنیاد کو سمجھیے۔ روشنی اور کیمرا کے ساتھ صبر، محنت اور لگن کی اہمیت کو سمجھیے۔” “روشنی اور صبر اچھی تصویر کیلئے ایک جیسے ضروری ھیں۔ میں نے کبھی بے صبرے انسان کو اچھا فوٹوگرافر نہیں دیکھا۔”
“آپ کے پاس جو بھی کیمرہ ہے براہ مہربانی اسی سے فوٹوگرافی شروع کیجئے۔ بار بار کیمرہ بدلنا آپ کے بہتر فوٹوگرافر بننے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔”
یہ وہ سبق ہیں جن سے اظہر حفیظ سینکڑوں نوجوان عکس کاروں میں فن سے محبت کی لو جلاتا ہے۔ وہ فنی سفر شروع کرنے والوں کو درست سمت میں آگے بڑھتا دیکھنے کا متمنی ہے اور اس کے لیے ان تھک محنت کرتا ہے۔ اظہر حفیظ کی زندگی اور وسائل کا بڑا حصہ ہمیشہ سے اپنے ہم عصر عکس کاروں اور نوجوانوں کی راہبری کے لیے وقف رہا ہے۔ اپنے ارد گرد کئی زندگیاں سنوارنے میں اظہر حفیظ کا خاموش مگر کرشماتی کردار ناقابل تردید ہے۔

سنجیدہ اور وضع دار فن کار کا المیہ رہا ہے کہ کسی ایک وقت میں وہ خود کو پہچاننے کے کرب سے ضرور گذرتا ہے۔ یہ گھڑی محمد اظہر حفیظ پر آئی تو ایک مدت تک وہ سوال اٹھاتا رہا کہ وہ عکس کشی کے کس خاص شعبے کا فوٹوگرافر ہے۔ وہ لکھتا ہے “میرے سامنے جو آیا میں تصویر کرتا چلا گیا۔ میں آج تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ میں کس موضوع کا فوٹوگرافر ہوں۔” اور یہ کہ “میرے نذیک فوٹوگرافی مسلسل سیکھنے کا عمل ہے۔ یہ آج تک جاری ہے۔” میری راۓ میں اظہر حفیظ کے ہمہ جہت کام کی حد بندی کرنا زیادتی ہے۔ اس کی عکاسی کا سچا جوہر کیمرے کی آنکھ سے مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور عام آدمی کی کھری عکاسی میں مضمر ہے۔ اس کی کلا فطرت کے حسن اور آدمیت کے درد کی گواہ ہے۔ یہی خوبی اسے کسی خاص موضوع کا اسیر کیے بنا ایک عوامی عکس کار کے طور پر ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ محمد اظہر حفیظ کی زندگی، شخصیت اور عکس کاری پر نظر ڈالی جاۓ تو اس کا کام سورۃ حشر کی ان آیات کی تفسیر دکھائی دیتا ہے:
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىؕ
(اللہ تخلیق کار ہے، صورت گر ہے، اسی کے لیے حسن وخوبی کی تمام صفتیں ہیں)