یارِ شاطرم نہ بارِ خاطر

یہ تحریر 2625 مرتبہ دیکھی گئی

فارسی ادب کی بلند و بالا اور پُرشکوہ عمارت کے چار ستون ایسے ہیں جن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے: فردوسی کا “شاہ نامہ” مولانا روم کی مثنوی، حافظ کا دیوان اور سعدی کی “گلستان” اپنی اپنی جگہ یہ چاروں تعریف سے مستغنی ہیں لیکن جو مقبولیت “گلستان” کے حصے میں آئی (اور جس میں اب کمی آ گئی ہے) وہ کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ انیسویں صدی تک برصغیر پاک و ہند یا ایران یا ان ممالک میں جہاں فارسی سمجھنے والے موجود تھے شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے “گلستان” کا علم نہ ہو۔ بورخیس نے کہیں لکھا ہے کہ جس نے الف لیلہ و لیلہ نہیں بھی پڑھی اسے بھی پتا ہے کہ الف لیلہ و لیلہ کیا ہے۔ اسی طرح “گلستان” کو نہ پڑھنے والوں کو بھی معلوم تھا کہ “گلستان” کیا ہے۔ “گلستان” کے سیکڑوں اقوال زبان زدِ خاص و عام تھے۔ ان پر لوک دانائی کا گمان ہوتا تھا۔ سادگی اور پُرکاری کا ایسا امتزاج شاذ ہے۔

“حیاتِ سعدی” مولانا الطاف حسین حالی نے 1886ء میں قلم بند کی تھی۔ اس کا نیا ایڈیشن مجلسِ ترقی ادب، لاہور، نے بھی ابھی ابھی شائع کیا ہے جس میں سعدی کے مزار کے بیرونی اور اندرونی منظر کی چھ رنگین تصویریں بھی ہیں۔ تحسین فراقی نے، جو مجلس کے ناظم ہیں، کتاب کا ایک سیر حاصل تعارف لکھا ہے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ سعدی پر یہ کتاب آج سے ایک سو چونتیس سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ کیا اس کے بعد سعدی کے فن اور شخصیت پر کوئی اور کتاب اردو میں لکھی گئی؟ انھوں نے جواب دیا کہ جہاں تک انھیں معلوم ہے اردو میں سعدی کے بارے میں یہ واحد کتاب ہے ۔ اس سے ہماری ترجیحات کا اندازہ لگا لیجیے۔

پرانے وقتوں میں شاعروں اور ادیبوں کے سوانح لکھنے کا رواج نہ تھا۔ بلکہ بادشاہوں اور حکمرانوں کے حالات بھی تھوڑے بہت تواریخ سے معلوم ہو جاتے تھے گو ان میں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل تھا، یہ تو اتفاق ہے کہ جولیس سیزر نے ملک گاؤل (موجودہ فرانس) میں اپنی فتوحات اور بعد میں برپا ہونے والی خانہ جنگی کا احوال رقم کیا۔ اس کی تصانیف کو جزوی طور پر سوانح قرار دیا جا سکتا ہے۔ اصل مقصد اپنی فوجی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا تھا۔ اس اعتبار سے بابر نے اپنے جو حالات لکھے وہ شاید سب سے زیادہ قابل قدر ہیں۔

سعدی کی زندگی کے مستند حالات نہ ملنے کا حالی کو بھی گلہ رہا۔ سعدی شیراز میں پیدا ہوئے۔ سالِ ولادت کا صحیح علم نہیں۔ تعلیم پہلے شیراز اور بعد میں بغداد میں حاصل کی۔ عربی بھی خوب جانتے تھے۔ سیلانی آدمی تھے۔ آج یہاں تو کل وہاں۔ ایشیا اور شمالی افریقہ کے اسلامی ممالک میں گھومتے پھرے۔ “بوستان” میں سعدی کی دوسری معروف تصنیف ہے اور “گلستان” کے برعکس، جس میں نثر اور نظم دونوں موجود ہیں، منظوم ہے، ہندوستان اور بالخصوص سومنات جانے کا ذکر ہے۔ یہ احوال ناقص اور غلط سلط ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعدی نے کبھی ہندوستان میں قدم نہیں رکھا تھا۔ کسی مسافر کی زبانی سنے واقعے کو منظوم کر دیا۔ واقعہ دل چسپ بھی نہیں۔ سعدی نے یہاں اپنے قول کو “جہاں دیدہ بسیار گوید دروغ” کو مدنظر نہیں رکھا۔

ایک دفعہ جب فلسطین کے کم آباد علاقے میں مقیم تھے تو مسیحوں نے پکڑ لیا اور دوسرے قیدیوں کی طرح خندقیں کھودنے پر لگا دیا۔ حلب کے ایک معزز شخص نے انھیں پہچان لیا اور دس دینار دے کر قید سے چھڑایا اور اپنے ساتھ حلب لے گیا۔ اس کی بیٹی ناکتخدا تھی۔ سعدی کا نکاح سو دینار مہر مقرر کرکے اس کے ساتھ کر دیا۔ کچھ مدت وہاں گزری مگر بیوی کی بدمزاجی اور زبان درازی سے سعدی کا ناک میں دم آ گیا۔ ایک بار بیوی نے طعنہ دیا کہ “تم وہی نہیں جسے میرے باپ نے دس دینار دے کر خریدا تھا؟” سعدی نے کہا: “ہاں، میں وہی ہوں۔ دس دینار دے کر مجھے خریدا اور سو دینار میں آپ کے ہاتھ بیچا۔”

اس بیوی سے نجات کیسے حاصل ہوئی، یہ معلوم نہیں۔ سعدی جہاں گرد آدمی ٹھیرے۔ کوئی مستقل ذریعہ معاشی نہیں تھا۔ سختیاں بہت جھیلیں۔ مفلسی سے بھی واسطہ پڑا۔ لیکن رفتہ رفتہ شہرت اتنی ہو گئی کہ جاننے پہچاننے والے انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ طبیعت کی شگفتگی میں کبھی فرق نہیں آیا اور یہ امر “گلستان” اور “بوستان” سے ظاہر ہے۔ 1292ء میں فوت ہوئے۔ عمر کتنی ہوئی۔ اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ کسی نے ایک سو بیس سال بتائی ہے، کسی نے ایک سو دس سال، اغلب یہ ہے کہ اسی پچاسی سال جیے ہوں گے۔

“گلستان” اپنی وضع کی انوکھی کتاب ہے۔ اس کی نقل اور تو کوئی کیا کرتا، خود ایرانیوں نے اس کا جواب لکھنے میں بڑی زور آزمائی اور قلم فرسائی کی لیکن سعدی کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے۔ آٹھ مصرعوں پر ایک نظم “گلے خوشبوئے در حمام روزے” جو “گلستان” میں ہے عالمی شاعروں کے کڑے سے کڑے انتخاب میں جگہ پا سکتی ہے۔ کیا بے ساختہ روانی ہے، کیا دل نشیں آہنگ ہے، کیا نظم کی بُنت ہے، کیا معنی آفرینی ہے۔

پند و نصائح پر مشتمل کتاب بے نمک ہونے کے بجائے اتنی شگفتہ ہو سکتی ہے، یہ سعدی کی عبقریت کی دلیل ہے۔ انھوں نے اسلامی دنیا کی سیر کی تھی، ہر طرح کے واقعات دیکھے  اور سنے تھے اور ان سے نتائج اخذ کیے تھے۔ انھیں معلوم ہو گیا تھا کہ سچ اور جھوٹ، نیکی اور بدی میں تمیز اتنی آسان نہیں جتنی کتابوں اور فلسفوں میں نظر آتی ہے۔ انسانوں کے صدیوں کے تجربات سے اخذ کیے نتائج نہ پوری طرح صحیح ہوتے ہیں نہ غلط۔ اکثر اوقات انھیں سلاست اور ایجاز سے ادا کرنا کافی ہوتا ہے۔ “گلستان” ہمیں زندگی کی رنگارنگی سے محظوظ ہونے کے مواقع فراہم کرتی ہے، بیکار کے مباحثوں پر نہیں اکساتی۔

مثلاً سعدی کا یہ قول کہ “دروغ مصلحت آمیز بہ از  راستیِ فتنہ انگیز” مستشرق براؤن کو بڑا ناگوار معلوم ہوا اور کہا کہ “سعدی کی اخلاقیات مغربی یورپ کی مسلمہ اخلاقیات سے کس قدر متعارض ہیں۔” خیر، اب تو پوری اخلاقیات کا پول کھل چکا ہے۔ اس لیے ایسے اعتراضات کی صحیح جگہ ردی کی ٹوکری ہے۔ خیال رہے کہ سعدی کے جملے میں دروغ اور راستی دونوں مشروط ہیں۔ لطیفہ یہ کہ براؤن کا یہ بھی ارشاد ہے کہ “گلستان نہایت درجہ میکیاولی طرز کی کتاب ہے۔” کیا میکیاولی کا ایران سے تعلق تھا؟ کیا اس کی کتاب یورپی اخلاقیات کی آئینہ دار نہیں؟ براؤن میکیاولی کو کیا سمجھ سک تا تھا۔ فی زمناہ جن زیرک قارئین نے میکیاولی کی کتاب کو بغور پڑھا ہے وہ اسے ہدایت نامے کے بجائے طنز ِملیح قرار دیتے ہیں۔

دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ حالی نے اپنے “اعتذار” میں، جو صرف پہلے ایڈیشن میں موجود ہے، لکھا کہ “ہماری زبان میں کسی کو (کذا) صیغہ جمع میں ذکر کرنا عموماً تعظیم کی علامت سمجھا جاتا ہے اور صیغہ مفرد کا استعمال خلاف تعظیم۔ “بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے سعدی کے لیے صیغہ مفرد استعمال کیا ہے۔ لیکن کتاب میں ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ “سرگور اوسلی لکھتے ہیں۔” ایک تو انگریز کا ذکر اور وہ بھی خطاب یافتہ اس کے لیے صیغہ جمع تو استعمال کرنا ہی چاہیے تھے۔ بیچارہ سعدی اس عزت افزائی سے محروم رہا۔

دوسرے یہ کہ فی زمانہ فارسی جاننے والوں کی تعداد اتنی کم ہو گئی ہے کہ کتاب کا اگر تہائی نہیں تو چوتھائی حصہ بیشتر قارئین کو ناقابل فہم معلوم ہوگا۔ وہ سعدی  کی غزلوں سے لطف اندوز نہ ہو سکیں گے۔ حق یہ ہے کہ سعدی کی غزلیں بھی نہایت عمدہ ہیں لیکن “گلستان” اور “بوستان” کی خیرہ کن روشنی کے سامنے ان کی چمک دمک ماند پڑ گئی ہے۔

حیاتِ سعدی از خواجہ الطاف حسین حالی

ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور

صفحات: 278؛ تین سو روپیے