کیا صورتیں پنہاں ہو گئیں

یہ تحریر 1538 مرتبہ دیکھی گئی

“ارژنگ” مبین مرزا کے سات خاکوں کا مجموعہ ہے۔ مبین مرزا اردو میں لکھے ہوئے بہترین خاکوں کا ایک ضخیم انتخاب شائع کر چکے ہیں۔ اس لیے انھیں بخوبی علم ہے کہ خاکہ نگاری کے تقاضے کیا ہیں۔ اہمیت اسی بات کو حاصل ہے کہ جس کا خاکہ تحریر کیا جائے لکھنے والا اس سے ذاتی طور پر واقف ہو۔ چناں چہ اس مجموعے میں انھیں حضرات کا ذکر ہے جن کے پاس اٹھنے بیٹھنے کا مبین مرزا کو بارہا اتفاق ہوا۔ یہ خاکے ان ادیبوں کے ہیں جن کا جدید اردو ادب میں بہت چرچا رہا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی، جمیل جالبی، مشفق خواجہ، جمیل الدین عالی، محمد خالد اختر، حمید نسیم اور شفیع عقیل کے نام اور کام سے کون آگاہ نہیں۔ ان میں سے کم از کم دو یعنی یوسفی صاحب اور خالد اختر کی شہرت مدتوں برقرار رہے گی۔ باقی حضرات کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

یوسفی صاحب پر بات کرتے ہوئے مبین مرزا نے صحیح لکھا ہے کہ “فیض صاحب ہی کی طرح وہ بھی مخالفین کی کسی بات پر جوابی کارروائی کے کچھ ایسے قائل نہیں تھے” یا “یوسفی صاحب کی شخصیت کا اظہار دھیمے سُروں ہی میں ہوتا تھا۔” بے شک ان میں بہت کچھ سہہ لینے کا حوصلہ تھا۔ یہ بردباری بینکنگ کے شعبے سے متعلق رہنے کا نتیجہ ہوگی۔

ان کے اسلوب کےبعض پہلوؤں کا ذکر مبین مرزا نے نہیں کیا۔ بہر حال، وہ شخصیت کے بارے میں لکھ رہے تھے، یوسفی صاحب کے نثری کمالات کا جائزہ لینا مقصود نہ تھا۔ یوسفی صاحب نثر کو بنانے سنوارنے پر بہت توجہ دیتے تھے اور یہ شوق یا تردد کم نہیں ہوا، بڑھتا ہی گیا۔ اسی وجہ سے انھوں نے جو کچھ لکھا وہ سارا ہمارے سامنے نہ آ سکا اور شاید محفوظ بھی نہ رہا ہو۔ سامنے نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ اسے یوسفی صاحب خود پر عائد کردہ معیار کے مطابق آراستہ پیراستہ نہ کر سکے ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں وہ کمال پسند تھے۔

یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان کی کتابوں میں جو مضامین ہیں ان میں بتدریج فکشنی رنگ بڑھتا گیا ہے۔ ایک طرح کی کشمکش ہے جس میں مصنف کو یہ فیصلہ کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے کہ مضمون کو فکشن میں جذب کر دیا جائے یا فکشن کو مضمون میں۔ ہیئتوں کا یہ تصادم ایک لطیف انتشار کی طرف لے جاتا ہے اور قاری اس آزادی سے محظوظ ہوتا ہے کہ یوسفی صاحب کی تحریروں پر جو ٹھپا چاہے لگا لے۔ یوسفی صاحب کی تقلید کرنا مشکل ہے۔ ان کی نثر کے خمیر میں شستگی اور شوخی کا جو امتزاج ہے وہ ہر کسی کو نصیب ہونے سے رہا۔

جمیل جالبی بھی یوسفی صاحب کی طرح نرم خو اور دل نواز تھے۔ تخلیقی سطح پر وہ یوسفی صاحب کے ہم پلہ نہ سہی۔ انھوں نے اردو ادب کی جو تاریخ چار جلدوں میں لکھی وہ قابلِ قدر ہے۔ افسوس ہے کہ وہ خرابیِ صحت کی بنا پر تاریخ کو مکمل نہ کر سکے۔ ان کی زیرِ نگرانی جو انگریزی اردو لغت شائع ہوئی تھی اس پر مخالفانہ تبصرہ شاہد حمید نے کیا تھا۔ اس معاملے میں شاہد حمید حق پر تھے۔ لغات اس طرح مرتب نہیں ہو سکتیں کہ حروف کو دس بارہ حضرات میں بانٹ دیا جائے اور یہ ملحوظ نہ رکھا جائے کہ ان کی صلاحیتوں میں خاصا فرق ہو سکتا ہے۔ اس طریقے کو اپنا کر لغت دو تین برس میں تیار تو ہو گئی مگر بھروسے کے قابل نہ رہی۔

مشفق خواجہ بھی مذکورہ بالا دونوں حضرات کی طرح ملنسار اور فیض رساں فرد تھے۔ غزل اچھی کہتے تھے مگر نہ جانے کیوں شعر گوئی پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ ان کے پاس کتابوں، رسالوں، خطوں اور فوٹوؤں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ اس ذخیرے سے دوسروں نے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ عام خیال ہے کہ انھوں نے یگانہ کی کلیات مرتب کرنے پر ضرورت سے زیادہ وقت ضائع کیا۔ ان کے کالم، جو وہ فرضی نام سے لکھتے تھے، یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی شوخیِ تحریر دل کو بھاتی تھی۔ بلا کے حاضر جواب تھے۔ فراخ دلی کے باوجود جب کسی سے ناراض ہو جاتے، اور مجھے یقین ہے کہ ناراضی کی کوئی معقول وجہ ہوتی ہوگی، تو اس سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر لیتے۔

محمد خالد اختر کم آمیز آدمی تھے۔ آسانی سے کسی کو قبول نہیں کرتے تھے لیکن جب کسی میں ہم مشربی کی خوبو پاتے تھے تو پھر اس کے لیے ان کا دروازہ بھی کھلا ہوتا تھا اور دل بھی۔ ان کی نثر نرالا ذائقہ رکھتی ہے۔ انگریزی نثرکے اسلوب کو اردو میں سمو دینا ان کا بڑا کمال ہے۔ لطف یہ ہے کہ یہ نثر کبھی اوپری معلوم نہیں ہوتی۔

ان چاروں سے ملنے ملانے کے مواقع مجھے بھی ملے تھے اور میں بلا تکلف یہ کہہ سکتا ہوں کہ مبین مرزا نے ان کے بارے میں جو لکھا ہے وہ بڑی حد تک درست ہے۔

کچھ ذکر ان کا بھی ہو جائے جن سے کبھی نہیں ملا اور نہ مل سکنے پر افسوس بھی نہیں۔ عالی صاحب کا جس انداز میں مبین مرزا نے ذکر کیا ہے اس کی تردید یا تائید کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عالی سے اگر جالبی صاحب ناراض، مشفق خواجہ ناخوش اور افتخار عارف نالاں رہے تو بدظنی کا کوئی معقول سبب تو ہوگا۔ رائٹرز گلڈ کے قیام کو بھی، دانستہ یا نادانستہ طور پر، ایک آمرانہ حکومت کے حق میں راہ ہموار کرنے کا عمل سمجھا جا سکتا ہے۔ آمروں کو ہمیشہ فکشن نگاروں اور شاعروں سے کد رہی ہے۔

حمید نسیم کی تنقیدی آرا میں کتنا وزن ہے، میں نہیں کہہ سکتا۔ ان کی کتابیں دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن جو یہ کہے کہ انتظار حسین کو اردو لکھنی نہیں آتی اس کی ادب شناسی مشکوک معلوم ہونے لگتی ہے۔ انتظار صاحب کے ناولوں اور افسانوں پر میں نے بھی نکتہ چینی کی ہے لیکن یہ احساس کبھی نہیں ہوا کہ ان کی اردو خام ہے۔

ان دونوں کی نسبت شفیع عقیل دلچسپ آدمی معلوم ہوئے۔ انھوں نے کسی قسم کی رسمی تعلیم حاصل نہ کی تھی۔ بقول خود “سکول کی شکل نہیں دیکھی کبھی۔” یہاں ایک بار پھر اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ ادب میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں پڑھنا پڑھانا ضروری نہیں۔ اچھی کتابوں سے شناسائی اور اچھے ادیبوں کی صحبت کافی ہے۔

خاکوں کا یہ سلسلہ ابھی ختم نہ ہونا چاہیے۔ مثلاً رفیق نقش، جمال پانی پتی، عزم بہزاد، جون ایلیا اور رئیس فروغ پر اور کون لکھے گا۔ کراچی میں اور بھی صاحبانِ کمال سے ملنے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ ایک نظر ان پر بھی۔

ارژنگ از مبین مرزا

ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 188؛ چار سو روپیے