“کہانی کا آخری کنارہ” ایک جائزہ

یہ تحریر 2130 مرتبہ دیکھی گئی

رواں سال کے آغاز میں اردو کی جو اہم کُتب منصہء شہود پہ آئیں اُن میں منزہ احتشام گوندل کا افسانوی مجموعہ “کہانی کا آخری کنارہ” بھی شامل ہے۔ افسانہ نگاری میں یہ اُن کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے آپ کی تحریر کردہ کہانیوں کا مجموعہ “آئینہ گر” کے عنوان سے ٢٠١۴ میں شائع ہو چکا ہے۔ آپ سے پہلا تعارف ملتان کے ادبی جریدے “پیلھوں” میں شائع ہونے والے افسانوں سے ہوا تھا۔ “آئینہ گر” کے علاوہ نثری نظموں کا مجموعہ “منزہ نظمیں” بھی قارئینِ ادب کے لیے ایک اہم کتاب ہے۔
بیس افسانوں پہ مشمل “کہانی کا آخری کنارہ” کی ہر کہانی اپنے تئیں ایک الگ جہانِ معنی سے متعارف کرواتی ہے۔ ان کی کہانیوں کے کردار مادیت پرستی کا شکار ہونے کی بجائے محبت میں آسودگی کے متلاشی ہیں۔

ایک کہانی کار اپنے ماحول اور اس کے گرد بکھری اشیاء کو جس طرح محسوس کرتا ہے ، اس کا ایک ثبوت منزہ جی کے افسانوں میں بھی نظر آتا ہے۔ وہ تمام سوالات جو ایک باشعور عورت کو الجھاتے رہتے ہیں، اس کا اظہار افسانوں کے مختلف پیرایوں میں کِیا گیا ہے۔
اڑھائی صفحے کا مختصر افسانہ” حبل الورید” اپنے کرافٹ میں مکمل افسانہ ہے۔ وہ تمام سوالات جو اُنہیں کہانی لکھنے پہ اُکساتے ہیں سوالیہ بیانیے میں بڑی آسانی سے بیان کر دیا گیا ہے۔ افسانے کے دو کرداروں کے مابین ہونے والا مختصر مکالمہ نہایت جاندار ہے۔ شکووں کے بوجھ سے تھک کر پوچھے گئے سوالات افسانے کے آخر تک اپنی موت آپ مر جاتے ہیں اور ایک نیا تجزیہ سامنے آتا ہے جس میں نسوانی کردار اس نتیجے پہ پہنچتا ہے ،
“ہر شخص اپنی جگہ پہ ٹھیک تھا۔ بس ہماری توقعات غلط تھیں، یا پھر توقعات ٹھیک تھیں مگر جن سے لگائی گئیں وہ لوگ مناسب نہ تھے”
“کہانی کا آخری کنارہ” میں منزہ احتشام گوندل بطور تخلیق کار زندگی کو زمانے کے بتائے گئے اصولوں اور تقاضوں پہ دیکھنے کی بجائے اپنا ایک نقطہء نظر رکھتی ہیں۔ انہوں نے زندگی کو جس نقطہء نظر سے دیکھنا اور پرکھنا چاہا اُس کا برملا اظہار اپنی کہانیوں میں کر دیا۔ “گم ہوتا کردار” ایک کاٹ دار افسانہ ہے جو معاصر تقاضوں ، سماج کے کھوکھلے اور عارضی تعلقات کے لیے ایک سوال نامہ بھی ہے اور سوالیہ نشان بھی۔ پورے افسانے میں ایک بھی جملہ غیر ضروری نہیں۔ اگر وہ مختصر جملہ “ایک کبوتر خلا میں اُڑان بھر رہا تھا” لکھ رہی ہیں تو افسانے کے سیاق و سباق میں یہ سادہ سا جملہ بھی معنویت سے بھرپور ہے۔
ان کے افسانوں میں پنجاب کے دیہی کلچر کی ایک واضح تصویر جھلکتی محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ بڑی آزادی سے پنجابی، ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں کے الفاظ کو اپنی کہانی کا حصہ بناتی ہیں۔ لفظوں کی یہ آزادی اس بات کی دلیل ہے کہ ایک تخلیق کار تخلیق کے مرحلے میں اس امر سے ماورا ہو کر تخلیق کرتا ہے کہ اُس کے فن پارے کا وجود کھنکتی مٹی سے نمو پزیر ہو گا یا چپچپاہٹ بھری چکنی مٹی سے۔ اُن کا یہ بیانیہ انھیں دیگر دیہی معاشرت کے عکاس افسانہ نگاروں سے ممیز بھی بناتا ہے۔ “راستی” ایک منفرد نوعیت کا تحریر کردہ ایسا افسانہ ہے جس میں راست فاطمہ کا کردار موت کے بعد بھی اپنی زندگی میں کیے گئے فیصلے کے بارے بڑا واضح بیان دیتا ہے کہ “جہاں میرے دل اور دماغ کی مرضی نہیں وہاں میں عورت سے نا عورت ہو جاؤں گی”
منزہ احتشام اپنی تحریروں میں اپنا موقف بیان کرنے کے لیے نہایت سنجیدگی سے فن کی معراج پہ پہنچ کر اپنے تخلیق کردہ کرداروں سے کہلوا چھوڑتی ہیں۔ ایک منجھے ہوئے کہانی کار کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود کو کہانی کے مکالموں اور کرداروں سے الگ رکھے، اس لحاظ سے منزہ جی کہانی لکھنے کے فن سے واقف ہیں۔
اُن کی کہانیاں درمیانے طبقے کی نسوانی نفسیات کی عکاس ہیں۔ “گرہیں” ، “گم ہوتا کردار” ، “جہاز کی کھڑکی سے نظارا” اور اس جیسی دیگر کہانیوں میں وہ سماج کی باشعور عورت کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ زندگی اور اس کے دوہرے معیارات کو مڈل کلاس عورت کس طرح دیکھتی ہے اس کا اندازہ ان کی کہانی کے ہر نسوانی کردار کے اپنے ایک نقطہء نظر سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایک اہم شے جس کا عکس ہر بڑے ادیب کے فن پاروں میں جھلکتا ہے کہ وہ سماج کے ٹیبوز کا جواب کاٹ دار لہجے میں دیتے ہیں۔ منزہ کی کہانیوں میں بھی سماجی گھٹن کا برملا اظہار ملتا ہے۔ افسانہ “مفت خورا” پڑھنے کے بعد رونا آتا ہے نہ ہنسی۔ محض ایک پھیکی سی مسکراہٹ ہے جو “مفت خورا” کے کردار نے خود بھی محسوس کی ہو گی۔
کہیں کہیں منزہ کے افسانوں میں خالدہ حُسین کے افسانوں کی طرح وجودی اظہار ملتا ہے۔ سرد پن ، سماجی کشمکش ، پھیکی اور بے رنگ زندگی کے کاغذی پھول ہماری مادیت پسند زندگی میں کس طرح سرایت کر گئے ہیں ، اس کا اظہار منزہ احتشام کے افسانوں میں بھی ملتا ہے۔ مثلاً جب وہ “جہاز کی کھڑکی سے نظارہ” کے کردار علینا اور اس کے شوہر کا ذکر کرتی ہیں کہ وہ دونوں ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس میں تمام تر مادی سہولیات ہونے کے باوجود خوشی کا عُنصر نہیں۔ ایسے میں اُن کا تجزیہ “آج کے انسان کو ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو محبت کے خمیر سے گندھا ہو” اور اس جیسے کئی جملے دلیل ہیں کہ وہ زندگی کے بارے واضح موقف رکھنے کے باوجود کہانی سے خود کو الگ رکھ کر لکھتی ہیں۔
فکشن کا جائزہ ہمیشہ فکشن کے طے کردہ اصولوں پر ہی لیا جاتا ہے۔ افسانہ دو بڑے عناصر سے مل کر ہی بڑا افسانہ بن سکتا ہے ایک اُس کا کہانی پن اور دوسرا اُس کہانی کا بیانیہ (Narrative)جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ یہ خبر ہے یا افسانہ۔ منزہ احتشام گوندل کے افسانوں کا مجموعی طور پہ جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے افسانے افسانے پن سے عاری نہیں۔ وہ فکشن لکھنے کا ہنر رکھتی ہیں۔ مذکورہ افسانوی مجموعہ قارئین کے لیے “کہانی کا آخری کنارہ” ہو بھی تو کنارے کے اُس پار چند اور کردار اُن کے منتظر ہیں۔
کسی بھی ادیب یا شاعر کے فن کی پختگی کا فیصلہ ہمیشہ وقت کِیا کرتا ہے۔ وقت سے پہلے کسی کتاب کو صدی کا بہترین فن پارہ قرار دینا محض دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے، لیکن “کہانی کا آخری کنارہ” کے بارے ایک بات جو وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فکشن کا آنے والا نقاد جب اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں کی فہرست مرتب کرے گا تو کہانی کے دوسرے کنارے پہ منزہ احتشام گوندل کے افسانے اُس کا مسکرا کر استقبال کریں گے۔

“کہانی کا آخری کنارہ” منزہ احتشام گوندل
صفحات: ١٣٢
مثال پبلشرز ، فیصل آباد