اکرام اللّٰہ کا ناول گُرگِ شب

یہ تحریر 2206 مرتبہ دیکھی گئی

کبھی کبھار یہ زندگی کسی ایسے مے خانے کی مانند لگتی ہے جہاں خوشی کا ذائقہ چکھنے والے بھی اُتنی ہی تڑپ لے کر آتے ہیں جتنا کہ غموں سے نڈھال شکست خوردہ وجود۔۔۔۔ آنے والے اپنی آمد کی وجہ سے بے نیاز سرشار و الم کی کیفیات سے ایک ساتھ لُطف اندوز ہوتے ہیں کہ یہی اُنھیں نجات کا ایک راستہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک کردار اکرام اللّٰہ کے تحریر کردہ ناول “گرگِ شب” کا ہے۔

یہ ناول پہلی بار ١٩٧٨ء میں شائع ہوا مگر ملکِ پاکستان پہ طاری آمریت کے مشکل ترین دور میں اس پہ پابندی لگا دی گئی۔ تاہم کہانی کبھی مرتی نہیں۔ یہ اپنا وجود منوا کے رہتی ہے، بھلے وہ چالیس برس بعد ہی اپنی پہچان کیوں نہ کروائے۔ یہی وجہ ہے کہ “گرگِ شب”بھی کسی کائناتی سچ کی طرح ایک بار پھر سنجیدہ قارئینِ ادب کی گفتگو کا مرکز بنا ہے۔ ٢٠١٧ء میں لاہور لٹریری فیسٹول میں اکرام اللّٰہ صاحب کو ایک ادبی نشست بہ عنوان “گرگِ شب کا ناول نگار” میں سننے کا موقع ملا۔ اس نشست کے میزبان ڈاکٹر ناصر عباس نیر تھے۔ میزبان کے استفسار پہ اکرام اللّٰہ نے بتایا کہ یہ ناول ٧٢-٧٣ میں لکھا تھا، اور ٧٩ میں شائع ہوا۔ اُس وقت اُن کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس پہ پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔

ناول کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ یہ زندگی ایک تسلسل سے ملنے والے غموں کی ایسی آماج گاہ ہے کہ جس کو جھیلنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ جو اسے “تمام دکھ ہے” کی مکمل تفسیر سمجھ کے قبول لیتے ہیں انھیں خواب سے حقیقت تک سنبھلنے میں وقت نہیں لگتا۔ لیکن جو اس کو من چاہے راستوں پہ موڑنے کے خواہاں ہوں بعض اوقات مثالیت پسندی کے کانٹے ان کے پورے وجود کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ اس زندگی کو کسی فلم یا افسانے کی کہانی کی طرح من چاہے راستے کی جانب موڑنا کسی کے بس میں نہیں۔ بعض اوقات تو یہ حیاتی ایسی مار مارتی ہے کہ اس کا کاٹا پانی تک نہیں مانگتا۔ یہی سب احوال “گرگِ شب” کے مرکزی کردار کو جھیلنا پڑے۔
گرگِ شب کے ظفر/شفیع نے اپنی پیدائش کے ساتھ ہی زمانے کی تلخیاں اوڑھ کر آنکھ کھولی اور اپنے وجود سے ہر شخص کو نفرت کرتے دیکھا۔ کہانی میں کچھ بھی حیران کن نہیں سوائے اس کی پیدائش کے واقعہ کے۔ ہوش سنبھالتے ہی اس کے گرد بکھری انسان نما مخلوق نے اسے بتایا کہ وہ “حلالی” نہیں ہے۔ اس معمے کی گتھیاں سلجھانے میں مگن شفیع کو اپنے وجود میں ایسا گھناؤنا پن دکھائی دیا کہ اسی وجہ سے وہ گاؤں چھوڑ کر شہر کا رُخ کر لیتا ہے۔ شہر جا کر والدین کی طرف سے عطا کردہ نام شفیع کو ترک کر کے ظفر کے نام سے پہچان بناتا ہے۔ ‘ظفر’ نام بذاتِ خود معنویت سے بھرپور ہے کہ اس کے بعد بظاہر اس پہ کامیابی کے نئے دریچے کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ہی بات جو اس کے ذہن میں کچوکے لگاتی رہتی ہے ، بھیانک خوابوں کی شکل اختیار کر کے ظفر کی “ظفریت” کو تہس نہس کر دیتی ہے۔
ناول کو پڑھ کر ایک بات کا احساس بار بار ہوتا رہا کہ ہم انسان دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ استحصال کرنے والے اور استحصال زدہ۔ اوّل الذکر انجام کے خوف سے ماوراء ہستی کے فریب میں مگن ہے جب کہ موخر الذکر کو بعض اوقات آنے والی دنیا کی جزا اور سزا بھی یہیں مل جاتی ہے۔۔۔ جزا اور سزا کے وہ فیصلے جو قدرت نے اپنے ہاتھ میں لیے ہیں ایسے میں ہم انسانوں کے ہاتھ کسی دوسرے کی کمزوری لگ جائے تو یہی دنیا اُس کے لیے درد ناک عذاب کی وعید بن جاتی ہے۔
بقول محمد سلیم الرحمٰن:
“آپ اُن تمام افراد سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں جن کی صرف موجودگی ہی طعنہ ثابت ہوتی ہے۔ اُس جگہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ سکتے ہیں جس سے نا خوش گوار یادیں وابستہ ہوں، مگر اپنے آپ سے، اپنے اندر پلتے اور پھیلتے عذاب سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ دنیا میں ہر آسائش ، ہر رہائش، ہر حیثیت کو تجنا ممکن ہے، مگر اپنے آپ سے گلو خلاصی نا ممکن ہے”

ناول کا مرکزی کردار بھی اپنے وجود میں پلتے دکھوں سے نجات پانا چاہ رہا ہے مگر سماج کے کریہہ رویے اس کی روح کو زخمانے کا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی جبلی لغزشوں کا قصوروار نوزائید کو قرار دینا کسی طور درست نہیں البتہ کلچرل نارمز ارتقائی صورت میں ہی وقوع پذیر ہوتی ہیں اور ان سے فرار فوری طور پر ممکن نہیں ہو سکتا۔ مذہب ، سماج اور سماجی اصول ان تمام نارمز کے لیے ہی بنائے گئے ہیں، اس ساری صورتِ حال میں کہیں بھی نومولود کو موردِ الزام ٹھہرا کر اہلِ زمانہ کی عدالت میں کھڑا کرنے کا اختیار کسی فرد کو حاصل نہیں۔ استحصال کرنے والا گروہ عموماً اس بات سے بے نیاز ہوتا ہے کہ اُن کے الفاظ کی بدبو کسی فرد کی داخلی کیفیات کے لیے کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔۔۔۔ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ All happy families are alike but each unhappy family is unhappy in it’s own way. یہاں ہر فرد کے نقصان مختلف ہیں۔ کسی کے پاؤں زمانے کی ٹھوکریں کھاتے زخموں سے چُور ہیں تو کوئی وجودیت کی لاش اٹھائے پچیس سال کی عمر میں ہی موت سے پہلے مر جاتا ہے۔ کوئی خود سے نجات کا خواہاں ہے تو کوئی تکمیلِ ذات میں سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ اس سارے عذاب سے کسی کو بھی فرار ممکن نہیں۔ ہر فرد پہ اپنے حصے کا آزمائشی پرچہ حل کرنا فرض ہے۔ آزمائش کے یہ پرچے حل کرتا ہوا شفیع/ظفر بھی زندگی کی آسودگیوں سے ملاقات کا خواہاں ہے مگر تمام تر آسائشیں اس کے سامنے کسی تعفن زدہ آلائش کی صورت اختیار کیے ہوئے اس کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ شاید یہی زندگی ہے۔۔۔۔۔۔۔