“باونی” کے باون رنگ

یہ تحریر 2880 مرتبہ دیکھی گئی

کہا جاتا ہے اگر آپ اس دنیا کو نئے زاویے سے دریافت کرنا چاہتے ہیں تو کتاب پڑھو، فلم دیکھو اور سیاحت کرو۔ قرآن میں بھی “سیرو فی الارض” کہہ کر خداوند متعال نے اہلِ عقل کو اپنے ہونے کی نشانیاں تلاش کرنے کی نصیحت کی ہے۔

آج کے متحرک دور میں بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو زندگی جینے کا ہنر جانتے ہوں۔ ہر شخص اس مشینی دور میں ایک کولہو کے بیل کی مانند گھوم رہا ہے اور اپنے آخری وقت میں ان گِنت حسرتوں کا بوجھ اٹھائے دنیا سے منہ موڑ لیتا ہے۔ اس المیے کا اطلاق اگر انسان کی اکثریت پہ ہوتا ہے تو مٹھی بھر جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے جو آج بھی کائنات کے حُسن کو نئے انداز میں دیکھتے ہیں اور اپنے خیالات کی مالا کسی قابلِ ستائش ہار کی مانند پرو کر دیکھنے والوں سے داد وصول کرتے ہیں۔

سفرنامے کی روایت ہر ادب میں ایک اہم صنف کے طور پہ مقبول ہے۔ یوسف خان کمبل پوش سے لے کر ہمارے مستنصر حُسین تارڑ صاحب تک ہر لکھاری نے کائنات کو نئے پیرائے سے دیکھ کر اس کے حُسن میں مزید نکھار بخشا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سفرنامہ لکھنے کی روایت اب دم توڑتی چلی جا رہی ہے مگر عارف والا کا ایک بنجارہ جب پاکستان کے تمام اہم ترین علاقوں کو دیکھتے ہوئے ماضی کی گھنگھور گھٹاوں میں سفر کرنے لگتا ہے تو ہمارا اس بات سے اعتقاد اُٹھ جاتا ہے۔

عرفان شہود کی “باونی” ایک برس قبل منصہ ء شہود پہ آئی اور قارئین کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے دو ایڈیشن شائع ہونے کے بعد بھی اس کے کئی پہلو تشنہء تحریر ہیں۔

“باونی” کو کُل سات ابواب میں تقسیم کِیا گیا ہے۔ پہلا باب “بحیرہ عرب کے ساحلوں پر” کے عنوان سے ہے جس میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کی سیر کروائی گئی ہے۔ دوسرا باب “صحرائی داستانیں” کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں عرفان شہود نے جام گڑھ ، قلعہ مِیر گڑھ، موج گڑھ قلعہ دیراوڑ اور چولستانی علاقہ جات کو اپنے سفرانچوں کا حصہ بنایا ہے۔ کمالِ فن یہ ہے کہ صحرائی علاقے جن کو چشمِ تصور میں لاتے ہوئے بھی عام آدمی ریت اور گرمی کی وجہ سے آنکھیں موند لے، “باونی” کی ورق گردانی کرتے ہوئے صحراوں کے مٹیالے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ ” بڑے گھروں کے ڈرائنگ رومز میں جو صحرا تصاویر میں دیکھے جاتے تھے وہی اب فریم سے باہر آچکے تھے” اس جیسے کئی جملے ہیں جو قاری کو اپنا اسیر بناتے چلے جاتے ہیں۔

تیسرا باب “شکستہ آئنوں کے درمیاں اُڑتا پرندہ” کے عنوان سے ترتیب دیا گیا ہے۔ “باونی” کا یہ حصہ کئی تاریخی پہلو لیے ہوئے ہے اور سرزمینِ پاکستان کے اہم ترین تاریخی مقامات مثلاً موہنجوداڑو، اُچ شریف، بھنبھور شہر تلمبہ کی تاریخیت، اور کئی دیگر اہم تاریخی مقامات کو شاملِ باب کِیا گیا ہے۔ باب چہارم کو ” مندر ہکڑو نور” کے عنوان دیا گیا ہے۔ اس باب میں چند تاریخی شخصیات کے نام سے مشہور مقامات کی سیر کروائی گئی ہے۔ پانچویں باب “فسوں نگر ” میں بہتے پانیوں کے نغمے سناتے ہیں۔ ان نغموں میں ایک کسک ہے اس کی الوہی کوک زندگی کے بہتے دھارے کی مکمل عکاس ہے ۔ “باونی” کا چھٹا باب “دربستہ کہانی” کے عنوان سے ملتا ہے۔ یہ باب اپنی طرز کا یادداشتوں پہ مشتمل ہے۔ پریم نگر کے دوست اور بچپن کے میلوں کی یادداشتوں کے علاوہ عرفان شہود نے اپنے باپ کی یاد میں جس طرح یادداشتوں پہ مشتمل مالا پروئی ہے، اہلِ دل آنکھ پُر نم کیے بغیر اس کو پڑھ نہیں سکتے۔

ساتویں باب کو “منظوم سفرانچے ” کا نام دیا گیا ہے۔

“باونی” کے سفرانچوں کی منفرد بات یہ ہے عرفان شہود نے پاکستان کے تمام اہم مقامات کو ایک کتاب میں یکجا کر دیا ہے۔ پہلا باب پڑھتے ہوئے ایک سرسری سا خیال آیا کہ میرے محبوب شاعر شِو کمار بٹالوی کے گاوں کے بارے تو ہر گز نہ لکھا گیا ہو گا لیکن باب چہارم تک پہنچ کر یہ وہم بھی دور ہو گیا۔

عرفان شہود نے سرزمینِ پاک کا موازنہ دنیا بھر کے اہم مقامات سے کِیا ہے۔ وہ کسی منجھے ہوئے فکشن نگار کی طرح Stream of consciousness کو برتتے ہوئے پِسنی کے ساحلوں سے آسٹریلیا اور کینیڈا کے ساحلوں کی جانب بہتے چلے جاتے ہیں۔

جس طرح سیر کرواتے ہوئے سفرنامہ نگار نے تاریخ کا تڑکا لگایا ہے، وہ اس کو دِل چسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مست توکلی، مائی کولاچی ، گرونانک، بھگت سنگھ اور شو کمار جی جیسی کئی اہم شخصیات کا اس دھرتی سے جڑت کا سلسلہ جوڑا گیا ہے ۔ تاریخ لکھنے کے باوجود یہ سفرانچے کسی بھی مقام پہ قاری کو بوجھل پن کا شکار نہیں ہونے دیتے۔

ایک جینوئن تخلیق کار کو اس سے سروکار نہیں ہوتا کہ اس کی پزیرائی کی جائے یا ناقدینِ فن اس کے فن پارے کو اہمیت ہی نہ دیں۔ اس کے نزدیک اپنے حِصے کا دِیا جلانا زیادہ پُر معنی ہوتا ہے۔ عرفان شہود جب نثر لکھتے ہیں تو پہلی ہی کتاب سے قارئین کی بڑی تعداد کی دل کھول کر داد وصول کرتے ہیں اسی طرح جب ان کا قلم نظم لکھتا ہے تو شدتِ جذبات سے بھرپور نظمیں اُن کے شفاف باطن کی عکاسی کرتی ہیں۔

عرفان شہود کے یہ سفرانچے اُن کی اِس جہت کے آئنہ دار ہیں جس میں وہ عرفانِ ذات سے عرفانِ الہٰی تک کے سفر کے لیے کوشاں ہیں۔ اُن کا شمار فطرت کے اُن پسندیدہ ترین افراد میں ہوتا جن کے لیے رُکنا محال ہے اور سفر ہی وسیلہء ظفر ہوتا ہے۔ عرفان شہود کی ذات کا ایک رجائی پہلو یہ بھی ہے کہ انہیں تعفن زدہ سماج میں بھی بدصورتی نظر ہی نہیں آتی۔ اُن کی آنکھ تو قدرت کی شگفتگی و رعنائیاں دیکھنے کو بنائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “باونی” کے باون رنگ انفرادیت اور تنوع کی اپنی مثال آپ ہیں۔