کلفتِ تلخیِ ایام مٹانے کے لیے

یہ تحریر 1486 مرتبہ دیکھی گئی

میرے خیال میں انیسویں صدی میں، ماہ لقا چندا کے سوا، کسی خاتون شاعر کا مجموعہء کلام شائع نہیں ہوا۔ متوسط طبقے میں تعلیم کا رواج تھا۔ عورتوں کو پڑھنا سکھا دیا جاتا تھا تاکہ قرآن اور گنی چنی دینی کتابیں پڑھنے کے قابل ہو جائیں۔ لکھنے کی حوصلہ افزائی نہ کی جاتی تھی۔ مرد کہتے تھے کہ اگر عورتوں نے لکھنا سیکھ لیا تو وہ عاشقانہ خط تحریر کرنے لگیں گی۔ یہ مردوں نے کیوں طے کر لیا، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ستم یہ کہ مردوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین شعر کہنے کی زحمت نہ کریں۔ یہ کام بھی ان کی طرف سے ہم ہی انجام دیں گے۔ یوں ریختی وجود میں آئی۔ اس صنف میں جو شاعر مشہور ہیں ان میں انشا، رنگین اور جان صاحب سرفہرست ہیں۔ اور بھی ہوں گے۔

شاید بیسویں صدی کے پہلے تیس چالیس برسوں میں بھی کسی خاتون کا مجموعہء کلام شائع نہیں ہوا۔ میرا یہ قیاس غلط بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود کسی ایسی کتاب کا نام یاد نہیں آتا جو کسی شاعرہ سے منسوب ہو۔ بہرحال، اب وہ صورت نہیں۔ خاتون شعرا تعداد میں زیادہ نہ سہی لیکن ان میں کتنی ہی ایسی ہیں جن کو اردو کی جدید ادبی تاریخ میں ناقابلِ تردید حیثیت حاصل ہے۔

فی الحال دو خواتین کی شاعری پر نظر ڈالنا مقصود ہے جن کا کلام کتابی صورت میں شائع ہوا ہے۔ انھیں معروف مصنفہ ‘حمراخلیق” نے مرتب کیا ہے۔ بقلیس جمال بریلوی ان کی خالہ تھیں۔ ان کی نظمون کے دو مجموعے کسی زمانے میں شائع ہوئے تھے۔ اب کہاں مل سکتے ہوں گے۔ غزلیں ان مجموعوں میں نہیں تھیں۔ شاید غزل گوئی کی طرف بعد میں رجوع کیا ہو۔ دوسری کتاب کا عنوان “کلام رابعہ پنہاں” ہے۔ رابعہ پنہاں حمرا خلیق کی والدہ تھیں۔ کتاب کو کلیات اس لیے قرار نہیں دیا جا سکا کہ ان کا سارا کلام اب دستیاب نہیں۔ کسی زمانے میں جو ملا تھا اسے جمع کرکے دیباچہ لکھنے کے لیے معروف نقاد مجتبیٰ حسین کو دیا گیا تھا۔ موصوف نے مسودہ گم کر دیا۔

دونوں خواتین نے اردو، فارسی اور انگریزی کی تعلیم گھر پر والد سے حاصل کی۔ یہ تعلیم کتنی عمدہ تھی اس کا اندازہ ان کے فارسی کلام سے لگایا جا سکتا ہے جو مذکورہ بالا دونوں کتابوں میں موجود ہے۔ “کلامِ رابعہ پنہاں” کے آخر میں حمراخلیق نے کچھ غزلیں اور نظمیں اپنی جواں مرگ ہمشیرہ فردوس انجم کی بھی شامل کر دی ہیں۔ ظاہر ہے کہ فردوس انجم کے کلام میں وہ پختگی نہیں جو بلقیس جمال اور رابعہ پنہاں کے ہاں نظر آتی ہے۔

اب ان نظموں اور غزلوں کو کس زاویے سے دیکھا جائے؟ جہاں تک نظموں کا تعلق ہے ان پر اخترشیرانی، حفیظ جالندھری اور ان شاعروں کا اثر ہے جن کا 1920ء سے 1940 تک خاصا چرچا رہا۔ اپنا کوئی الگ رنگ اور آہنگ تلاش کرنا مشکل اور اذیت ناک کام ہے۔ پھر یہ بھی کہ لکھنے والا یا لکھنے والی اس ادب سے اثر قبول کیے بغیر کیسے رہے جو اس کے خیال میں اپنے عہد کی ترجمانی کر رہا ہوں۔

چناں چہ ان کی نظموں میں وہی کیفیات پائی جاتی ہیں جو بیسویں صدی کے پہلے چالیس پچاس برسوں میں عام تھیں۔ زبان پر عبور حاصل ہے۔ خیالات کو ادا کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ لیکن ایسی نظمیں کم ہیں جو خاص طور پر یاد رہ جائیں۔ رابعہ پنہاں کا نعتیہ کلام عمدہ ہے، خصوصاً وہ نعت جو “کجا یہ کلکِ بے مایہ کجا توصیفِ سلطانی” سے شروع ہوتی ہے۔ نعتیہ کلام بلقیس جمال کی کلیات میں بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں “ردائے زہرا” اور “قربان گاہ کربلا” کی الم ناکی متاثر کن ہے۔ موضوعات بالعموم وہی ہیں جو اس دور میں نظموں کے لیے مخصوص تھے یعنی قوم پرستی یا وطن پرستی کے جذبات کو ابھارنا، اسلامی ملت کو بیداری کا پیام دینا اور مناظرِ فطرت کی عکاسی۔

غزلوں میں کہیں کہیں ترقی پسندانہ خیالات یا سیاسی صورت حال کی ترجمانی بھی نظر آتی ہے، جیسے بلقیس جمال کے یہ شعر:

بارے پوری حسرتِ آدم ہوئی جاتی ہے آج

اک نئی جنت یہیں قائم ہوئی جاتی ہے آج

ہے کلاہِ گوشئہ دہقاں حریفِ آفتاب

گردنِ چنگیز و نادر خم ہوئی جاتی ہے آج

یا رابعہ پنہاں کا یہ شعر:

بساطِ زندگی پر یوں نشاطِ طبع کی خاطر

ہمیں شطرنج کے مہرے بنائیں گے عدو کب تک

یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان کی غزلیں نظموں سے زیادہ توانا ہیں اور پڑھتے ہوئے آج بھی پرانی نہیں معلوم ہوتیں۔

ایک ایسے دور میں جب ہم اپنے ادبی ورثے کے تحفظ سے بے پروا بلکہ دست بردار ہو چکے ہیں یہ کتابیں کیسے چھپیں؟ حمرا صاحبہ نے لکھا ہے کہ ان کتابوں کی اشاعت ان کے بھتیجے، اسد جمال، کے اصرار اور تعاون سے ممکن ہوئی۔ اسد جمال صاحب کی سمجھ داری داد کی مستحق ہے۔ جب بھی بیسویں صدی کی شاعر خواتین کی کاوشوں کا کوئی جائزہ لیا جائے گا تو بلقیس جمال اور رابعہ پنہاں کا ذکر اس میں ضرور آئے گا۔ ان کتابوں کی اشاعت نے دونوں خواتین کو نئی زندگی بخش دی ہے۔

کلیاتِ بلقیس جمال بریلوی، مرتبہ حمرا خلیق

ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی

صفحات: 503؛ چودہ سو روپیے

کلامِ رابعہ پنہاں، مرتبہ حمرا خلیق

صفحات: 256؛ چھ سو روپیے