پرانی کہانی مگر آج بھی نئی

یہ تحریر 2760 مرتبہ دیکھی گئی

          تاریخی ناول سے ہم اردو میں جو مراد لیتے ہیں اگر اسی تعریف کو سامنے رکھا جائے تو “گنجی بار” کو قطعیت کے ساتھ تاریخی ناول کہنا مشکل ہوگا۔ اس کے بیشتر واقعات 1857ء میں پیش آتے ہیں اور ان لوگوں سے سروکار رکھتے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے ماتحت رہنا گوارا  نہ کیا اور آزادی حاصل کرنے کی خاطر غیرملکی غاصبوں کے خلاف صف آرا ہوئے۔

          اصل معرکے تو دہلی اور لکھنؤ میں لڑے گئے لیکن بے اطمینانی کی فضا شمالی ہند میں پھیلی رہی۔ بہت سے لوگوں کو احساس تھا کہ انگریزوں سے نجات حاصل نہ کی گئی تو شاید ایک عرصے تک محکوم بن کر ہی جینا ہوگا۔ چناں چہ پنجاب میں بھی احمد خاں کھرل جیسے حریت پسند اور وطن پرست قائد اور ان کے ہم نواؤں نے انگریزوں سے ٹکر لینے کی ٹھانی۔

          ان جاں بازوں کو کیوں ناکامی ہوئی، اس کے اسباب بہت سے ہیں۔ ان سب کا جائزہ شاہد رضوان کے ناول میں نہیں لیا گیا اور ایسا کرنا ایک مختصر ناول میں ممکن بھی نہیں تھا۔ البتہ مصنف نے یہ واضح کر دیا ہے کہ سکھوں اور ہندوؤں کے علاوہ خود بہت سے مسلمان بھی انگریزوں کے ساتھ تھے۔ جب اتفاق کے بجائے نفاق کا پلا بھاری ہو تو بہادری سے جان تو دی جا سکتی ہے لیکن کامیابی کا حصول ممکن نہیں رہتا۔

          ناول میں بعض کردار تاریخی ہیں اور بعض افسانوی، حقیقت اور افسانے کے اسی تانے بانے سے قصہ بانی پروان چڑھتی ہے۔ یہاں دو نوجوان لڑکیوں کی کہانی بھی ہے جو پہلے سہیلیاں تھیں اور پھر ایک نوجوان پر فدا ہو کر ایک دوسرے کی دشمن بن گئیں۔ ان میں سمی ایک کمھار کی بیٹی ہے۔ گلاں کا تعلق ایک بہتر خاندان سے ہے۔ دونوں کو ماہیا پسند ہے جو گلاں کا رشتے زاد بھی ہے۔ گلاں کا منگیتر کرملی انگریزوں کا ملازم ہے اور گلاں “کسی طور ایسے شخص کی بیوی بننے کو تیار نہ تھی جو فرنگی فوج کی طرف سے دھرتی ماں کے خلاف لڑ رہا تھا۔”

          دونوں کے ساتھ بری ہوتی ہے۔ سمی کو کسی بوڑھے سے بیاہ دیا گیا۔ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجاوروں اور جعلی پیروں کے چکر میں پڑ گئی۔ گلاں نے، کرملی سے شادی سے بچنے کے لیے، جھوٹ موٹ دیوانگی اختیار کی جیسے اسے کوئی بدروح چمٹ گئی ہو۔ اسے کبھی پتا نہ چل سکا کہ اس کے محبوب ماہیا کو کرملی نے دھوکا دے کر مار ڈالا ہے۔ وہ آخر میں مجذوب کے روپ میں نظر آتی ہے۔

          احمد خاں کھرل نے، جہاں تک ان کے بس میں تھا، انگریزی فوج کا مقابلہ کیا اور کچھ کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن بالآخر خود بھی شہید ہوئے اور تحریک کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اس ناکامی میں ایک حصہ جنگی تدبیر کی کمی کا تھا اور دوسرا اپنوں کی غداری کا۔

          شاہد رضوان کا مشاہدہ اچھا ہے اور انھوں نے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے کی دیہی زندگی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ قائل کُن ہے۔ یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ 1857 میں بھی دیہات کا رہن سہن ہو بہو وہی تھا جیسا دکھایا گیا ہے۔ لیکن دیہات میں زندگی سست روی سے تبدیل ہوتی تھی اور شاید 1957ء کی دیہاتی فضا سو سال پہلے کی زندگی سے خاص مختلف نہ ہو۔ یہ تو پچھلے بیس برس میں گردو پیش برق رفتاری سے بدلے ہیں اور جانے پہچانے رویے اجنبی ہوتے چلے گئے ہیں۔

          شاہد رضوان نے جس ماحول کی عکاسی کی ہے اس کے لیے وہ اردو موزوں نہیں تھی جسے کلاسیکی اور شستہ کہا جاتا ہے۔ ان کی نثر پر پنجابی کی جو چھاپ ہے وہ اوپری معلوم نہیں ہوتی اور نثر کو سنوارتی اور زمینی بناتی ہے۔ البتہ جنگ و جدل کا تذکرہ پھیکا سا ہے۔ شاید اس کے لیے جتنی باریکی سے تحقیق       کی ضرورت تھی وہ فی زمانہ بہت دشوار ہے۔

          بعض تسامحات کی طرف اشارہ بے جا نہیں۔ برکلے کی دو بیویاں دکھائی گئی ہیں اور دونوں انگریز۔ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ یہاں مصنف سے چوک ہوئی ہے۔ اسی طرح بہادر شاہ ظفر کو احمد خاں کھرل سے چھوٹا بتایا گیا ہے۔ 1857ء میں بہادر شاہ بیاسی سال کے ہو چکے تھے۔

گنجی بار از شاہد رضوان

ناشر: ادب دوست، چیچہ وطنی   03061503614 صفحات : 224               پانچ سو روپیے