نہ آم نہ گٹھلیاں

یہ تحریر 2369 مرتبہ دیکھی گئی

اُردو داستانوں پر گیان چند جین کا تحقیقی مقالہ پہلی مرتبہ کتابی صورت میں شائع ہوا تو میں نے بڑی دلچسپی سے اس کا مطالعہ کیا۔ دلچسپی تو جلد ہی کافور ہو گئی۔ حصے میں صرف مایوسی آئی۔ تحقیق تھی تو سرسری، تنقیدی شعور تھا تو نہایت ناقص۔ نئی بات بس اتنی معلوم ہوئی کہ رامپور کی رضالائبریری میں غیر مطبوعہ اُردو داستانوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

1969ء میں کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ اسے میں نے نہیں دیکھا۔ اب پینتالیس برس بعد اس کے نئے ایڈیشن کو دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ انجمن ترقی اُردو اسے شائع کرنے کا تکلف نہ کرتی تو بہتر ہوتا۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو قابل توجہ ہو۔ اُردو داستانوں پر شمس الرحمن فاروقی کے گراں قدر کام کے سامنے گیان چند جین کی تصنیف بالکل بچکانہ معلوم ہوتی ہے۔

جین صاحب خود لکھتے ہیں کہ پہلے ایڈیشن کے شائع ہونے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ’’خاکہ لچر اور زبان پھسپھسی ہے۔‘‘ ان کی رائے خود احتسابی کی اچھی مثال ہے اور تازہ ترین ایڈیشن پر بھی صادق آتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اپنی خامیوں سے آگاہ ہو کر انہوں نے کتاب پر جو نظر ثانی کی اس کی بدولت کتاب کی کایا پلٹ ہو گئی۔ یہ نری خوش فہمی ہے۔ کتاب وہی ٹاٹ ہے جس پر پہلی دفعہ لوٹ لگانے کا موقع ملا تھا۔ ٹاٹ میں جو پیوند لگے ہیں وہ ٹاٹ ہی کے ہیں، مخمل کے نہیں۔

تحقیق جس طرح فرمائی گئی ہے اس کا کچھ رنگ انتساب کے درج ذیل اقتباس سے ہویدا ہوتا ہے۔ مقالہ نویس تحقیق کو آگے بڑھانے کی خاطر مسعود حسن رضوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کے پاس مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب کا نادر ذخیرہ تھا۔ ’’رضوی صاحب اندر کے کمرے سے چند قلمی یا مطبوعہ داستانیں بنفس نفیس اٹھا کر لاتے تھے۔ میں کچھ دیر میں انہیں دیکھ کر نوٹ (کذا) کر لیتا تھا۔ اس کے بعد وہ انہیں لے جاتے تھے اور پھر دوسری جلدیں لاتے تھے۔‘

اس طریقے سے تو صرف فہرست سازی کی جا سکتی ہے۔ کسی کتاب کے مندرجات کو تنقیدی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہی سلوک جین صاحب نے رضا لائبریری رامپور کے داستانی ذخیرے کے ساتھ بھی کیا۔ مصنف کے بارے میں اگر کچھ معلوم ہوا تو دو تین سطروں میں درج کر دیا۔ داستانوں کے نام اور تصنیف کے سال لکھ دیے۔ مخطوطہ اٹھا کر الل ٹپ ہیں سے دو تین جملے، نثر کے نمونے کے طور پر نقل کیے۔ قصہ ختم۔ کسی داستان کو پڑھنے کی زخمت گوارا نہیں کی کہ اس کی خوبیوں یا خامیوں پر کوئی تبصرہ کر سکیں۔ کچھ نہ پڑھنے کے باوجود کسی تیقن سے یہ رائے ظاہر کرتے ہیں۔ ‘‘بدنصیب تھے یہ داستان نویس کہ ان کے فکر پارے اشاعت کا منہ نہیں دیکھ سکے ورنہ بہت ممکن تھا کہ ان میں زبان و بیان کے وہ جواہر موجود ہوں جو اُردو ادب کے دامن کو مالا مال کر دیں۔‘‘لطف یہ کہ اسی کتاب میں آگے چل کر کہا ہے کہ ’’رامپور کا کوئی داستان گو جاہ اور قمر کو نہیں پہنچتا۔‘‘ جب آپ نے رامپور کے داستان نویسوں کو بالاستیعاب پڑھا ہی نہیں تو اس قسم کے تقابل کا جواز کیا رہ گیا؟ علاوہ ازیں جو پہلے لکھ چکے ہیں اس کی خود تردید کر رہے ہیں۔

میں ان کے تحقیقی کارناموں کے بارے میں کوئی رائے نہیں دینا چاہتا کیوں کہ تحقیق میرا میدان نہیں۔ تاہم کتاب میں جس تنقیدی شعور کا مظاہرہ کیا گیا ہے اسے پڑھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ ہنسنا چاہیے یا رونا۔ میں ان کی بعض آرا درج کرتا ہوں۔ انہیں پڑھ کر قارئین خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جین صاحب کی ادب فہمی کا درجہ کیا ہے۔

داستانوں کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’یہ مغرب کے شہرۂ آفاق ناولوں کی طرح نہیں جنہیں پڑھنا بارِ خاطر اور ختم کرنا دو بھر ہو جاتا ہے۔‘‘ چلیے، اس طرح سیر و انتیس، تالستائی، دوستوئیفسکی، ڈکنز، ٹامس من، میلول، جیمز جوائس، گالدوس وغیرہ سب ٹھکانے لگ گئے۔ یہ بھی پتا چلا کہ ان شہرۂ آفاق ناولوں کو انہوں نے غلطی سے بھی پڑھنے کی کوشش نہ کی ہو گی۔

’’چیمبرس (کذا) انسائیکوپیڈیا کے ایک مضمون نگار کے مطابق قصے وہیں زیادہ ترقی کرتے ہیں جہاں لوگ سب سے زیادہ کاہل ہوتے ہیں۔‘‘ اوّل تو یہ امر کسی قول کو مستند نہیں بنا سکتا کہ وہ کسی انسائیکلوپیڈیا میں شائع ہوا ہے۔ دوسرے اس طرح کے محاکموں کے مضرات پر خود بھی غور کر لینا چاہیے۔ اگر قصے سے مراد فکشن ہے تو پھر ترقی یافتہ ممالک کے لوگ سب سے زیادہ کاہل قرار پائیں گے۔

پھر فرماتے ہیں کہ ’’بیسویں صدی کے ذہن کو داستانیں مضحکہ خیز نظر آتی ہیں‘‘ اور ’’فرصت کسے کہ ضخیم داستانیں پڑھ سکے۔‘‘ آج کل انگریزی میں جس تواتر سے ضخیم اور کئی کئی جلدوں پر مشتمل فینٹسی ناول لکھے جا رہے ہیں اور جنہیں عہد حاضر میں لکھی جانے والی داستانیں ہی سمجھنا چاہیے اس سے جین صاحب کے مہمل دعوے کی نفی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے دفاع میں یہ کہا جائے کہ پچھلے بیس پچیس برسوں کے فکشن رجخانات سے وہ واقف نہ تھے لیکن ٹولکین کی ضخیم داستان تو1955ء میں شائع ہوئی تھی اور دس برس بعد اس کا ہر طرف چرچا تھا۔ بہرحال جو نقاد تالستائی، ڈکنز وغیرہ کے نالوں کو بارِ خاطر سمجھتا ہو اس نے ٹولکین کا نام کب سنا ہو گا۔ چند اور جواہر ریزے ملاحظہ ہوں۔ ’’حکومت کے فرائض انگریزوں نے اپنے ذمے لے لیے تھے۔ اس لیے ہندوستانی تاجروں۔۔۔ کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کے سوا کوئی ذمہ داری باقی نہ رہی تھی۔‘‘ گویا ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کاروبار چوپٹ ہو چکا تھا۔ ’’اُردو میں اخوان الصفا کو حیوانی رزمیہ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ ’’ہومر کی ایلیڈ کسی اور انداز کی رہی ہو گی۔ موجودہ ایلیڈ میں بڑی حد تک ہومر کی تخلیق شامل ہے لیکن کچھ حصے بعد کے شعرا کے ہیں۔‘‘ ’’برطانیہ میں پہلی مشہور نظم بیوولف ہے جو گیارہویں صدی میں لکھی گئی۔ یہ شخص فرانسیسی اور انگریزی جنگ کا ہیرو ہے۔‘‘

غرض کہ پوری کتاب اس قسم کے لطائف سے بھری پڑی ہے۔ خیر، بے سروپا باتیں کہنے میں جین صاحب اکیلے نہیں ہیں۔ اگر اُردو کے دو نامور نقاد یہ کہہ سکتے ہیں کہ جیمز جوائس نے اپنا ناول ’’یولی سیز‘‘ فرانسیسی میں لکھا تھا تو جین صاحب کوالٹی سیدھی ہانکنے کا حق کیوں نہ دیا جائے۔ جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو شاید محققین ان کی کاوش کو محض حواشی سے مزین فہرست سازی سے زیادہ کچھ نہ سمجھیں۔

کتاب کو پڑھ کر آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ نام بڑا اور درشن تھوڑے۔ پروف کی غلطیاں بہت ہیں۔ کتاب ایک معروف علمی ادارے نے شائع کی ہے۔ اس لحاظ سے پروف خوانی سے اتنی بے پروائی برتنا اور بھی افسوسناک ہے۔ اُردو کی نثری داستانیں ازگیان چند جین، ناشر، انجمن ترقئ اُردو، کراچی (