نظم

یہ تحریر 2250 مرتبہ دیکھی گئی

مجھے ڈراؤ نہیں ہولناک قسمت سے

کہو نہیں کہ ہے بے لطف سرزمینِ شمال

چلو کہ مل کے مناتے ہیں آج پہلی بار

وہ جشن جس کو زمانہ فراق کہتا ہے

ہمارا مل کے بچھڑنا ہے ہجر کا تیوہار

نہ مل سکیں گے سہانی سحر میں ہم ، نہ سہی

نہیں رہے گا اگر چاند ہم قدم ، نہ سہی

مگر یہ تحفہ رخصت جو آج دیتی ہوں

عجیب شے ہے ، کسی کو کوئی نہیں دیتا:

یہ دیکھو ، ہیں مری پرچھائیاں جو پانی پر

بوقتِ شام کہ بے کل ہے نیند سے دریا

نظر جو ٹوٹتے تارے کی بے بسی میں ہے گم،

صدا جو اب ہے گلے میں رندھی ہوئی آواز،

کبھی گمکتی تھی ، تازہ تھی ، کھنکھناتی تھی

یہ تحفے ماسکو کے پاس کام آئیں گے

وہاں کی چڑیوں کی سرگوشیاں سنائیں گے

ستا سکے گا نہ سیلن سے اپنی اکتوبر

مئی کی نرم ہواؤں کا لطف پانا تم

مگر مجھے ، مرے پیارے ، نہ بھول جانا تم

بہت دنوں نہ سہی ، پہلی برف باری تک

ترجمہ : ظ ۔ انصاری

آننا اخماتووا کی دیگر تحریریں