جس کا ہو سراپا آپ محمود
کیا شعر میں کیجے اس کو محدود
گو پیشِ نگاہ نیش یا نوش
تھا جُود و کرم سدا سے مقصود
ہر شوقِ سفر تھا ماورائی
نہ خوفِ زیاں نہ مستیِ سُود
وہ لحن کہ روشنی کی رَو تھا
جو یاد ہے سو ہے جاوداں رُود
۲۰۱۶ء
جس کا ہو سراپا آپ محمود
کیا شعر میں کیجے اس کو محدود
گو پیشِ نگاہ نیش یا نوش
تھا جُود و کرم سدا سے مقصود
ہر شوقِ سفر تھا ماورائی
نہ خوفِ زیاں نہ مستیِ سُود
وہ لحن کہ روشنی کی رَو تھا
جو یاد ہے سو ہے جاوداں رُود
۲۰۱۶ء