نئے افسانوی راستے اور واسطے

یہ تحریر 1369 مرتبہ دیکھی گئی

محمد حمید شاہد کی فکشنی دنیا موت سے آباد ہے۔ کردار یا مر جاتے ہیں یا جاں کنی کے عالم میں ہیں یا شعوری یا غیرشعوری طور پر مرنے کے خواہش مند ہیں؛ یا انھیں نیم زندہ یا نیم مردہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسی ہستیاں جو اپنی زندگی میں معنویت یا سمت گم کر چکی ہیں اور نیست و نابود ہو جانا کسی طرح کا حل نظر آتا ہے یا شاید معما جس میں داخل ہو کر اس گورکھ دھندے کا کچھ اتاپتا مل سکے جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس انداز کے فکشن میں خوشگواری کے پہلو یا لمحے بہت کم ہیں۔ لیکن یہی کابوسی یا مایوس کن کیفیت اسے حقیقت سے بہت قریب کر دیتی ہے کہ جس معاشرے یا ماحول یا سیاسی دباؤ میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ فلاح کی راہ نہیں دکھاتا۔ اس اعتبار سے ہم فکشن نگار کو قنوطی قرار نہیں دے سکتے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی نظر تاریک پہلوؤں کی طرف بار بار جاتی ہے۔ وجہ یہ کہ محمد حمید شاہد کی روش حقیقت پسندانہ ہے، گو پرانی وضع کی حامل نہیں۔ اس فکشن میں جدیدیت کی جو رو کار فرما ہے وہ پرانی یا ترقی پسندانہ فکر سے بہت دور اور بہت مختلف ہے۔ جو مریضانہ ماحول ہے وہ گرد و پیش سے ابھر کر افسانوی دنیا کے رگ و ریشے میں رچ گیا ہے۔
دیہی ماحول ہو یا شہری، دونوں کی مؤثر عکاسی کرنے میں محمد حمید شاہد کا قلم کامیاب ہے۔ ا ن کا بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے معاشرے کو ایک مرض کی طرح دیکھا ہے اور کسی تجربہ کار (اسے ادبی اصطلاح سمجھیے) نباض کے روپ میں نبض ٹٹولی ہے۔ میرا خیال نہیں کہ کسی اور نئے فکشن نگار نے گرد و پیش کی دہشت زدگی کو اس غور سے دیکھا ہو اور یہ جاننے کی کوشش کی ہو کہ اس ہول ناکی کے باوجود لوگوں میں کسی نہ کسی طرح جیے جانے کی سکت موجود ہے۔ بیانیے میں دہشت زدگی گھول کر اسے گوارا بنانے کی مساعی جا بجا حیرت میں ڈالتی ہے۔ لکھنے والا قاری سے کہتا ہے: لو، یہ کڑوا گھونٹ پی جاؤ۔ تمھیں زندگی تو پھر بھی اچھی معلوم نہ ہوگی لیکن کسی حد تک سمجھ میں آنے لگے گی۔
“حیرت کا باغ” میں افسانوں کے پانچ مجموعوں اور ایک ناول “مٹی آدم کھاتی ہے” کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ پڑھنے والے کو محمد حمید شاہد کے تخیل اور افسانوی رنگارنگی سے روشناس کرانے میں ممد ثابت ہو گا۔ ان کے افسانوں کا ایک انتخاب “اندر کا آدمی” کے عنوان سے عرفان جاوید نے بھی کیا ہے جس میں بیس افسانے شامل ہیں۔ عرفان جاوید افسانے، خاکے اور مضامین لکھنے کے لیے خاصے معروف ہیں۔
یہ بڑا مشکل ہے کہ تمام افسانوں کا باری باری جائزہ لیا جائے۔ لہٰذا جو افسانے زیادہ نمائندہ معلوم ہوئے ذیل میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ “جنریشن گیپ” مکالموں پر مشتمل ہے۔ بولنے والوں کو نام نہیں دیے گئے اور افسانے کی بُنت اس ڈھب کی ہے کہ نام غیرضروری معلوم ہوتے ہیں۔ اولاد کی سنگین خود غرضی کھانچے یا دوری کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ جس عورت سے بیٹا شادی کرنے جا رہا ہے وہ بھی پرلے درجے کی مطلبی دکھائی دیتی ہے۔ “تماش بین” کی الم ناکی غضب ڈھاتی ہے۔ جو نہیں کہا گیا وہی دردناک ہے۔ “ہارجیت” کے آخر میں اس طرح کا پیچ ڈالا گیا ہے جو اوہنری اور موپساں سے مخصوص ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ آخر اس طرز کے افسانوں کو ممنوعہ کیوں خیال کیا جائے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قدرے مضحک اور غیرمتوقع خاتمے پر ہسنا جائے یا صدمے سے دوچار ہونے والے سے ہم دردی محسوس کی جائے۔ “دوسرا آدمی” میں جو ہم سفر اپنے زمانے کی نفسانفسی کا گلہ کر رہا ہے وہ صرف باتیں کرکے وقت گزارنا چاہتا ہے۔ “معزول نسل” بڑی کفایت سے لکھا ہوا اثر انگیز افسانہ ہے۔ “مرگ زار” جیسا افسانہ پہلے نہیں لکھا جا سکتا تھا۔ راوی کو اس کے بھائی کی موت سے مطلع کیا جاتا ہے جو جلال آباد کے آس پاس کہیں شہید ہوا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ پیش آتا ہے اسے بے حسی سمجھ لیں یا جنگ و جدل میں ایک معمول کا واقعہ۔ لیکن بھائی کی زندگی میں دراڑ آ گئی ہے اور جب وہ اپنی ماں کو روتے دیکھتا ہے تو “میں بچھڑے ہوؤں کو اتنا یاد کرتا ہوں کہ اندر کا کافر دل پسیج کر ایمان اور زمین سے وابستہ ان جذبوں کو اپنے اندر سے ڈھونڈ نکالتا ہے جو وہاں کبھی تھے ہی نہیں۔” یہ افسانہ بعض پڑھنے والوں کو شاید طنزیہ معلوم ہو لیکن اصل میں ایسے دکھ کا اظہار ہے جسے نہ قبول کرتے بنتی ہے نہ جھٹلاتے۔ “ایک مسلسل زرگزشت” ایک ایسے آدمی کا قصہ ہے جسے بالآخر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل اقتدار کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور ان سے ٹکر لے کر خود ہی کچلا جائے گا۔ “خونی لام ہوا قتلام بچوں کا” دل دہلا دینے والا افسانہ ہے جس میں صورت حال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ایک قدرے فاترالعقل بچے میں، جو بھولپن میں دوسروں کو ڈرانے کا کھیل رچا رہا ہے، اور خودکش حملہ آور میں تمیز کرنا ممکن نہیں رہا۔ “جنگ میں محبت کی تصویر نہیں بنتی” میں ریمنڈ کارور کے ایک افسانے کو اپنے بیانیے میں بڑی ہنرمندی سے سی یا سمو دیا ہے۔ اسے جدت طرازی کی عمدہ مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں محمد حمید شاہد کا تخلیقی اظہار اپنے عروج پر ہے۔ اس افسانے کے سامنے “مٹی آدم کھاتی ہے” کچھ جچتا نہیں۔
دو افسانوں کا ذکر رہا جاتا ہے۔ دونوں کا پس منظر بلوچستان ہے۔ بلوچستان کی صورتِ حال پر اس سے بہتر افسانے اردو میں نظر سے نہیں گزرے۔ “برشور” میں خشک سالی اور پانی کی نایابی سے بعض علاقوں میں جو تباہی پھیلی ہے اس کا اندازہ دور بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ “کوئٹہ میں کچلاک” زیادہ ڈراؤنا ہے جہاں پتا ہی نہیں چلتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حقیقت میں کیا ہے۔ جھوٹ اور سچ، خیالی منصوبہ بندیوں اور زمینی حقائق کے درمیان تمیز کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اصلیت کیا ہے، اس کے بارے میں اتھاہ بے بسی کے احساس کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
حیرت کا باغ: مجموعہ، محمد حمید شاہد
ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور
صفحات: 704؛ دو ہزار دو سو روپیے