میر باقر علی۔ داستان گو

یہ تحریر 790 مرتبہ دیکھی گئی

(2)
ایک مرتبہ کہیں باہر تشریف لے گئے چار پانچ ماہ میں واپس آئے۔ میں نے دریافت کیا “میر صاحب! کہاں کہاں کی سیریں کیں۔ بہت عرصہ میں واپسی ہوئی؟”
فرمایا۔ “قید سے رہا ہو کر آ رہا ہوں”۔
مَیں۔ (حیرت سے) “خیرباشد، قید کیسی؟!”
وہ ۔ “حضرت! کیا عرض کروں”۔ (رئیس کا نام لے کر) “وہاں سے طلبی آئی تھی۔ میری شامتِ اعمال کہ وہاں پہنچ گیا”
میں۔ “آخر کیا ہوا؟”
وہ۔ “عرض کر چکا ہوں قید تھی۔ خاطر تواضع تو خوب ہوئی۔ مہمان خانہ میں ٹھہرایاگیا۔ دونوں وقت عمدہ کھانا اور نوکر چاکر خدمت کو موجود۔ لیکن داستان آج ہوتی ہے نہ کل۔ رئیس اپنی رنگ رلیوں اور عیش پرستیوں میں مصروف محوِ رُخ حسن فروش، میں سخت پریشان نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن کا مصداق نمازیں پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگتا تھا کہ یا الٰہی اس زنداں سے نکال۔ آخر خدا خدا کرکے وہ روز آیا کہ ایک شب داستان سنانے کے لیے طلبی ہوئی۔ سجدہء شکر بجا لایا اور گیا۔ جا کر دیکھا کہ دربار کا عجب رنگ ہے۔ بیہودہ گوئی۔ فحش مذاق کی گرم بازاری۔ پھبتیاں کسنے میں ہر ایک استاد۔ پکھڑ بازی میں بے بدل۔ ایک جانب بھانڈوں کا مجمع۔ دوسری طرف زنانِ بازاری کا جھمگھٹ، دونوں میں چوٹیں چل رہی ہیں لام کاف ہو رہا ہے۔ استغفراللہ طبیعت کو سخت وحشت ہوئی۔ رئیس پر نظر ڈالی تو رڑ درو اور کھوپڑی شریف کی ساخت کچھ ایسی تھی جس سے سمجھ گیا کہ بالکل بودم بے دال ہیں۔ دانت پھاڑنے کے سوا اور کوئی کام نہیں رہا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنی عقل کو دورِ مئے احمری سے چرخ دے رہے تھے۔ داستان شروع کی۔ میں اپنا مغز کھپا رہا ہوں۔ لیکن وہاں کوئی نہیں سنتا۔ میں اپنی راگنی سنا رہا ہوں اور وہ اپنے الاپ میں مست ہیں۔ سخت کوفت ہوئی۔ خاموش ہو جاتا تھا۔ ٹھہر ٹھہر جاتا تھا۔ جب متوجہ ہوتے تھے پھر شروع کرتا تھا۔ لیکن پھر وہی کچریاں پکنے لگتی ہیں۔ خیر خدا خدا کرکے میں اپنے فرض سے سبکدوش ہوا۔ سمجھا کوئی خاک نہیں۔ کیونکہ اچھی طرح سے سنا ہی نہیں تھا لیکن واہ وا اور تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ مصاحبین میں سے ایک نے عرض کیا، خدا وند!! بوستان خیال اور طلسم ہوشربا اور ایسی ہی سب داستانیں محض فرضی اور من گھڑت افسانے ہیں۔ رئیس صاحب نے فرمایا توبہ کرو توبہ کرو۔ کتابوں میں لکھی ہوئی باتیں کہیں غلط ہوتی ہیں۔ غرض ایک شب داستان ہونے کے بعد پھر اسی مجلس میں ڈال دیا گیا۔ بہت کوشش سے آٹھ روز کی رخصت لے کر آیا ہوں”
میں۔ “تو کیا اب پھر تشریف لے جائے گا؟”
وہ۔ “لاحول ولا قوۃ” خدا نہ لے جائے۔ پیچھے پی ہزار نعمت پائی۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر صاحب مرحوم کے مختصر افسانے بہت پُرمذاق اور دلچسپ ہوتے تھے۔ ایک روز دوپہر کو تشریف لائے۔ میں نے مجبور کیا کہ کچھ سنا دیجیے۔ فرمایا:۔
دو بھائی کسی ریاست میں ملازم تھے۔ جس قدر چھوٹا عقل مند تیز طرار معاملہ فہم اور دُور اندیش تھا۔ اسی قدر بڑا بھائی سیدھا سادا بے وقوف اور سادہ لوح تھا۔ چھوٹے بھائی کی اہلیہ اپنے باپ کے گھر گئی ہوئی تھی۔ خاوند نے بہت کوشش کی کہ چند روز کی رخصت مل جائے تو خُسرال جا کر بیوی کو لے آئے۔ لیکن کسی فوری ضرورت کی وجہ سے رخصت نامنظور ہوئی۔ آخر اُس نے بڑے بھائی سے کہا:۔
“بھائی صاحب مجھ کو تو رخصت ملی نہیں۔ آپ کو آسانی سے مل جائے گی تکلیف تو ہوگی لیکن جا کر اپنی بھاوج کو لے آئیے۔”
بڑے بھائی کمر کس جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ اور رخصت کی دخواست دے کر ایک ہفتہ کی اجازت لے لی۔ چلتے وقت چھوٹے بھائی نے جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا۔ اچھی طرح سے سمجھا دیا کہ “بھائی صاحب! خدا کے لیے وہاں اپنی عقل مندی کا اظہار نہ فرمائیے گا۔ ورنہ مجھ کو خفیف ہونا پڑے گا۔ ضرورت سے زائد گفتگو نہ کیجیے گا۔ بلکہ بہتر تو یہی ہوگا کہ زیادہ تر آپ خاموش رہیں۔ جو کچھ سوال کیا جائے اس کے جواب میں جیسا موقع ہو ‘ہاں’ یا ‘نہیں’ کہہ دیا کرنا۔ اور جلد واپس آ جائے گا۔”
بڑے بھائی ٹٹو پر چار جامہ کس اور سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔ رات کا وقت ایک جنگل بیابان میں ہوا۔ وہیں ڈیرا ڈال دیا۔ گھر سے روٹیاں پکوا کر لائے تھے۔ ایک کنویں پر چار جامہ بچھا کر کھانا کھایا۔ اور پانی پی کر آرام کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن فکر یہ درپیش ہوئی کہ ٹٹو تو خیر بندھا ہوا ہے اور چارجامہ اُن کے نیچے ہے۔ سر پر جو پگڑی ہے اگر اُس کو کوئی چُرا کر لے گیا تو کیا ہوگا۔ اُس کی حفاظت کا کوئی انتظار کرنا چاہیے۔ تھوڑی دیر غور کرنے کےبعد پگڑی سر پر اچھی طرح جمائی اور کنویں میں سر لٹکا کر سو رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دستار حماقت نذر چاہ ہو گئی۔ صبح کو اٹھ کر دیکھا تو سب چیزیں موجود لیکن جس کا خدشہ تھا وہی غائب۔ خیر اُٹھے اور ننگے سر چوروں کو برا بھلا کہتے ہوئے پھر روانہ ہوئے۔ برسات کا موسم تھا۔ راستہ میں جا بجا پانی بھرا ہوا تھا۔ مکھیاں دِق کرتی تھیں تو ٹٹو اپنی دُم سے اڑاتا تھا۔ اور دُم تھی لانبی جس کی وجہ سے کیچڑ اور مٹی بھی ساتھ آتی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں تمام کپڑوں اور حضرت کے چہرے پر کیچڑ کی افشاں چُن گئی۔ ننھی ننھی بوندیں برس رہی تھیں۔ سر کھلا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ دو تین چھینکیں آئیں اور نزلہ کی ریزش شروع ہو گئی۔ ٹٹو کو جب مکھیوں نے بہت ستایا تو اس نے زور زور سے دُم ہلانی شروع کی اور چھینٹیں جلدی جلدی آنے لگیں۔ انھوں نے گھبرا کر ہنٹر رسید کیا۔ ٹوٹو نوک دُم بھاگا اور ایسا تیز ہوا کہ لاکھ روکا لیکن نہ رُکا۔ اب مصیبت پر مصیبت یہ کہ ٹٹو برابر دُم ہلاتا چلا جا رہا ہے۔ تمام کپڑے او رچہرہ کیچڑ میں لت پت۔ ناک سے ڈوبت ایسی بہہ رہی ہے کہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ رومال پاس نہیں، آستین سے خشک کرتے جا رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آستین میں دھوبی نے اچھی طرح سے کلف کر دیا ہے۔ راستہ میں جھاڑی اور درخت کی جو نیچی شاخیں ملتی ہیں ان میں اٹک اٹک کر کپڑے پھٹ رہے ہیں اور چہرہ لہولہان ہو رہا ہے۔ غرض بخرابی بسیار اس ہیئت سے کہ کپڑے تار تار برہنہ سر کیچڑ میں سنے ہوئے۔ حواس باختہ اور چہرے پر کئی خراشیں موجود۔ حضرت چھوٹے بھائی کی خسرال آباد میں وارد ہوئے۔ فوج طفلاں نے جو اس مجمسہ بوالعجب پر نظر ڈالی تو غول بیابانی سمجھ کر تالیاں بجائیں کہ ٹٹو کا بھی قافیہ تنگ ہو گیا اور گھبرا کر دولتیاں مارتا ہوا جو جھپٹا ہے تو ایک ہی سپاٹے میں اُس نشست گاہ کے سامنے آ کر ٹھیرا۔ جہاں چھوٹے بھائی کے خسر صاحب تشریف رکھتے تھے۔
تمام گھر پریشان ہو گیا کہ داماد کے بھائی صاحب بایں ہیئت کذائی آئے ہیں۔ کہی خیر کرنا۔ کسی نے ان کو سنبھالا۔ کسی نے ٹٹو کو پکڑا۔ لا کر کمرے میں بٹھایا اور بھائی کے خُسر نے گھبرا کر دریافت کیا:۔
“آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں؟ خیریت تو ہے”
کہنا چاہتے تھے، ہاں، لیکن بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ میں زبان سے نکلا’نہیں’۔
خسر صاحب۔ (زیادہ پریشانی کے ساتھ)”میاں تمھارے بھائی تو اچھی طرح سے ہیں؟”
آپ نے ایک آہِ سرد کے ساتھ نیچی گردن کرکے جواب دیا۔ “ہاں۔”
یہ جواب ہی ایسا تشویشناک تھا کہ وہ زیادہ گھبرا گئے اور دریافت کیا۔ “ارے بھئی کچھ تو بتاؤ تو سہی وہ خیریت سے ہیں۔ زندہ تو ہیں؟
زبان کا بُرا ہو پھر نکلا۔ “نہیں”
بس کہرام مچ گیا۔ جسے دیکھو مصروف آہ و فغاں۔ جو کوئی دریافت کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کے داماد کا انتقال ہو گیا ہے اور بڑے بھائی خبرِ مرگ لے کر آئے ہیں۔ زنانخانہ مین بھی روز روشن سیاہ ہو گیا۔ غریب لڑکی کی چوڑیاں ٹھنڈی کر دی گئیں۔ اب آپ حیرت سے ہر ایک کو دیکھ رہے ہیں کہ رنج و غم کی کیا وجہ ہے؟ لیکن سمجھے کہ یہ بھی کوئی رسم ہوگی۔
جب غمی کی رسمیں پوری ہو چکیں اور تیسرے روز مہمان رخصت ہو گئے تو اپنے چھوٹے بھائی کے خسر سے کہا۔ بھاوج کو لینے کے لیے آیا ہوں”۔
خسر۔ “ارے میاں جب چاہے لے جانا۔ اب اس کا وہاں کیا رہا ہے۔ غریب کی تقدیر میں بیوہ ہونا لکھا تھا۔ وہ پورا ہوا۔ عدت کے ایام گزر جائیں تو آپ کے یہاں بھیج دی جائے گی۔ پانچ چھ ماہ بعد آ کر لے جانا۔”
یہ جواب لے کر واپس چلے آئے۔ بھائی نے حیرت سے دریافت کیا:
“بھائی صاحب! کیوں تنہا کیوں تشریف لے آئے زنانی سواریوں کو کیوں نہیں لائے؟”
بڑے بھائی۔ “پانچ چھ ماہ بعد آ جائیں گی۔”
چھوٹا بھائی۔ “آخر اس وقت آپ کے ہمراہ بھیجنے میں کیا عذر کیا؟”
بڑے بھائی۔ “کچھ نہیں وہ ذرا بیوہ ہو گئی ہیں لہٰذا عدت بعد آئیں گی۔”
چھوٹا بھائی۔ (کچھ حیرت اور غصہ سے) “جناب آپ کیا فرما رہے ہیں۔ کچھ عقل تو زور دے کر بات کیا کیجیے۔ بھلا میں تو زندہ بیٹھا ہوں وہ کس طرح بیوہ ہو گئیں
بڑے بھائی۔ “بھئی تمھاری بھی عجیب باتیں ہیں جب نانی اماں بیوہ ہوئیں تب بھی تم زندہ تھے۔ خالہ اماں رانڈ ہوئیں جب بھی تم موجود تھے۔ پھوپھی رانڈ ہوئیں اس وقت بھی تھے۔ اس قدر ہمارے یہاں عورتیں بیوہ ہوئیں تم زندہ تھے۔ تو کیا تمھارے ہی مرنے سے رانڈ ہوتی ہیں۔”

کنور محمد یٰسین علی خان کی دیگر تحریریں