میر باقر علی ۔ داستان گو

یہ تحریر 703 مرتبہ دیکھی گئی

            سچ ہے سوائے خدا کی ذات کے اور ہر چیز کو فنا ہے۔ چمنستانِ دہر میں لاتعداد عندلیبانِ خوشنوا آئے اور اپنی اپنی زمزمہ سنجی سے دعوتِ لذتِ سماع دے کر اُڑ گئے۔ ہزاروں گُلہائے رنگا رنگ نے طوفانِ تعطر برپا کیا اور مرجھا گئے۔ اُن میں سے ہی میر باقر صاحب مرحوم داستان گو بھی تھے۔ جو فن داستان کے لحاظ سے وحید العصر اور فرزانہ روزگار تھے۔

            سال گذشتہ حیات تھے۔ آج منوں خاک کے نیچے آرام کر رہے ہیں۔ واہ ری دِلی کئی مرتبہ اُجڑی اور لُٹی۔ ماہرینِ زمانہ پریشان ہو کر نکلے اور جہاں سینگ سمائے چلے گئے لیکن پھر بھی اُسی اجڑے دیار کی خاک اور خطہ مردم خیز نے وہ جوہر پارے پیدا کیے جو مطلع صحافت و شہرت پر نیر اعظم ہو کر چمکے۔ حضرت خواجہ حسن نظامی، حضرت علامہ راشد الخیری، حکیم ناصر نذیر فراق،مرزا سائل، حضرت بے خود وغیرہ وہ مایہ ناز ہستیاں ہیں جن کو کانِ اردو، جان اردو اور شان اردو غرض جو بھی کہو زیبا ہے۔ انہی قابل ترین ہستیوں میں سے خدا بخشے میر باقر صاحب بھی تھے۔

            اکثر راقم پر عنایت فرماتے اور جب دل چاہتا تشریف لے آتے تھے۔ سادگی اور وضع داری کا یہ حال تھا کہ بھوجلا پہاڑی سے قرول باغ خدا جھوٹ نہ بلائے تو دو ڈھائی میل سے کم نہیں۔ بلکہ زائد ہی ہوگا۔ لیکن اُن کو وہاں سے پیدل آنا اور پیادہ پا ہی واپس جانا۔ ہاں اگر رات زیادہ ہو جاتی تھی تو مجبوراً سواری میں چلے جاتے تھے۔ ایک روز میں سبزی منڈی سے آ رہا تھا کہ راستے میں مڈبھیڑ ہو گئی۔ کتاب بغل میں دبائے چلے آ رہے تھے۔ میں نے عرض کیا۔ “میر صاحب! اس قدر پیادہ پائی باعثِ تکلیف ہوتی ہوگی۔ آخر سواری کیوں مطبوع خاطر نہیں؟”

            اپنی ٹانگوں پر ہاتھ مار کر فرمایا۔ “میاں!! دو گھوڑے اللہ تعالیٰ نے دے رکھے ہیں جب تک یہ چلتے ہیں کسی سواری کی ضرورت نہیں، ان کو ہی ساتھ لایا ہوں اور ان پر ہی چلا جاؤں گا۔”

            بات کرتے تھے تو گویا منہ سے پھول جھڑتے تھے۔ معلومات اور تجربہ اس قدر وسیع تھا کہ جس موضوع کو لیتے تھے معلوم ہوتا تھا کہ بیدار مغز فلاسفر تنقید کر رہا ہے۔ نظم کی بابت تو نہیں کہا جا سکتا کہ فکرِ سخن کرتے تھے یا نہیں لیکن نثر کے تو استاد تھے۔

            جس روز جہاں کہیں داستان سنائی ہوتی تھی، فیرینی، زردہ، بالائی اُن کی خاص غذا تھی۔ افیون کی چسکی لگائی۔ سگریٹ کا بکس اور ایک گلاس میں پانی سامنے رکھوا لیا۔ دو زانو بیٹھ گئے اور داستان شروع کر دی۔ پھر تو یہ حال ہوتا تھا کہ رُلانا اور ہنسانا اُن کے اختیار میں تھا۔ منظر کی دلفریبی، محاورات کی چستی، بیان کی رنگینی اور الفاظ کی شوکت سے سامعین محو ہو جاتے تھے۔ اگر کوئی مذاقیہ جملہ کہہ دیا ہے تو ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ آنکھوں سے پانی نکلنے لگا جس کو دیکھو رومال منہ سے لگائے کھی کھی کھی کھی کر رہا ہے اور چہرہ سرخ ہو رہا ہے۔ ہجر و فراق کی وہ تصویر دکھاتے تھے کہ طبیعت پر خاص اثر ہوتا تھا۔ رزم کا منظر ایسا پیش کرتے تھے کہ لڑائی کا میدان نگاہوں کے سامنے آ جاتا تھا۔ جملہ آلات حربیہ  ان کی زبان پر تھے۔ فوجوں کی ترتیب، میسرہ میمنہ، قلب و عقب میں نبردآزمائیاں، جرار کی آراستگی، پہلوانان نامدار کے خود و زرہ بکتر، جوشن و چار آئینہ کی سجاوٹ، گھوڑوں کی چلت پھرت اور موڑ توڑ کی تعریف۔ غرض معلوم ہوتا تھا کہ شاہنامہ کا مصنف شاہان ایران و توران کی جنگ کا خاکہ کھینچ رہا ہے۔ یہی حال بزم کا تھا۔ جشن فریدوں و بزم جمشیدی کا لطف آتا تھا۔

            اُن کی داستان جہاں تفریح و تفنن طبع کا باعث تھی وہاں حقیقت میں نگاہوں اور گوش ہوش کے لیے مفید نصائح، دلچسپ و کار آمد معلومات اور پند سود مند کا ذخیرہ بھی تھی۔ ایک روز طلسم ہوشربا کی داستان سنا رہے تھے۔ کہ عورتوں کا ذکر آ گیا۔ داستان کا سلسلہ تو قطع کیا اور اس جنس لطیف پر تنقید شروع کر دی۔ فرمایا “عورت مجسم مسرت ہے، ایک نعمت ہے، ایک خوش رنگ پھول ہے جس کی خوشبو مشام جان تک کو معطر بنا دیتی ہے۔ مرد کے بہترین حصہ، جسم کا بہترین حصہ نصف ہے۔ اس کی زیر کی اور دانائی کے سامنے افلاطون و ارسطو کی عقل بھی دنگ ہے۔ اگر بیوی گھر میں موجود ہے تو مرد بہت سی برائیوں سے بچتا ہے۔ وہ روپیہ کماتا ہے اور بیوی حسنِ انتظام کے ساتھ اُس کو خرچ کرتی ہے۔”

            غرض کہ جہاں تک بھی ممکن ہو سکتا تھا، عورتوں کی تعریف میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اور پھر دفعتاً کہنے لگے:

“مگر ہندوستان کی عورتیں!! پناہ خدا۔ اللہ ان سے محفوظ رکھے، اخلاق ان میں نہیں، تمدن سے یہ دور، معاشرت سے ناواقف، تہذیب سے ناآشنا، جاہل اور ناکارہ۔ خیر ادنیٰ درجہ کی عورتوں سے قطع نظر فرمائیے انھیں ابھی علم کی روشنی نہیں پھیلی ہے۔ اور نہ اُن کا وہ تمدن اور ماحول جس میں انھوں نے پرورش پائی ہے۔ اس کا مقتضی ہو سکتا ہے کہ وہ عالی دماغ اور روشن خیال بن سکیں۔ لیکن اُجلے پوش اور شرفا کے گھرانوں کا حال سنیے تو حیرت ہو جائے گی۔ ایک نوجوان شخص نمونیہ، ہیضہ، درد گردہ یا قولنج میں دفعتاً گرفتار ہوتا ہے اور اس کی خالا اماں یا نانی ممانی یا پھوپھی جان مزاج پُرسی کو آتی ہیں۔ سب سے پہلا مورچہ تو یہ ہوتا ہے کہ بڑی بی تو ڈولی سے اتر کر مریض کی پٹی کے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہیں اور ماما اور کہاروں میں ڈیوڑھی پر وہ گلخپ اور تھکا فضیحتی اور چیخ پکار ہو رہی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مریض اگر غنودگی میں ہے تو جاگ اٹھتا ہے یا اس کی طبیعت کو کچھ سکون ہوا تھا تو پھر پریشان ہو گیا۔ آخرکار صاحب خانہ (یعنی میزبانہ) آ کر دریافت کرتی ہے۔ اماں جان ڈولی والوں سے کیا کرایہ ٹھہرا تھا؟ بڑی بی کی ناک بھوں چڑ ھی اور پیشانی پر شکنیں نمودار ہو گئیں جھلا کر جواب دیا۔

“نوج یہ بندی غیر مردوں سے کلام کرتی اور موئے گنواروں سے کرایہ ٹھہراتی، ایسا دیدہ دلیر نہیں ہے۔ یہاں تو ہمیشہ ڈولی منگائی اور بیٹھ کر چلی آئی۔”

لیجیے انتظام کی تو یہ حالت ہے کہ جس سواری پر تشریف لائی ہیں اس کا کرایہ ہی نہیں ٹھہرایا۔ وہ آنہ کی جگہ چار آنہ دینے پڑے وہ بھی اس قدر جھگڑے کے بعد کہ تمام گھر پریشان اور مریض کی طبیعت کو بھی خلجان۔ خیر اس بلا سے نجات ملی تو اب مریض کی جانب متوجہ ہوئیں۔

“میرے لعل تو کیسا ہے؟ ہائے وہ روز کی بیماری سے ہی کیا حال ہو گیا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے اور خون کا تو بدن میں نام نہیں رہا۔”

“مریض کو پختہ خیال ہو گیا کہ خوفناک بیماری سے سابقہ پڑا ہے۔ اللہ ہی حافظ ہے۔ چاہیے تھا کہ مریض کے پاس بیٹھ کر تسلی و تشفی کرتیں۔ جلد صحت یاب ہونے کی امید بندھاتیں اور مرض کی شدت کا حال نہ بیان کرتیں بجائے ایسی باتیں کرنے کے عزیز مریض کو اور پریشان کر دیا۔ یہی نہیں اگر محبت کا زیادہ جوش آیا تو آنکھوں سے دوچار آنسو بھی نکل پڑے اور بھرائی ہوئی آواز میں یہ الفاظ بھی کہہ گئیں۔ ہے ہے ہمارے محلہ میں اے بھلا ہی سا نام ہے اُن کا جواں ہٹا کٹا لڑکا (مریض کی طرف اشارہ کرکے) اس کی جان سے دور سات سات قرآن درمیان کہتی میا یوں ہو جائے، بس اس بیماری میں دو ہی روز کے اندر چٹ پٹ ہو گیا۔

بس جو کچھ کسر تھی وہ بھی پوری کر دی۔ مریض کو یقین واثق ہو گیا کہ ایسی مہلک بیماری سے بچنا دشوار ہے کیوں کہ بڑی بی نے عنایت فرما کر ثبوت بھی بہم پہنچا دیا ہے کہ ان کے محلہ میں مت بھی واقع ہو چکی ہے۔

تو جناب یہ گفتگو کا ڈھنگ اور انداز ہے۔ موقع بے موقع، محل بے محل ان کا بک دینے سے مطلب۔ بیٹھی ہوئی تو مریض کے پاس ہیں لیکن دل کا چال ہے کہ نہ معلوم کیا کھانا تیار کیا جائے گا۔ جب مہمان آئی ہیں تو میزبانی کے پورے فرائض کیوں نہ ادا کرائے جائیں۔ آخر خاموش نہ رہا گیا تو کہہ اٹھیں “دُلہن! زیادہ تکلف کرنا میرا تو گھر ہے ننھے کا جی اللہ رکھے اچھا ہو جائے۔ پھر جو کہلاؤ گی کھا لوں گی۔ میں بھی پچھلے دنوں بیماری سے اٹھی ہوں۔ ابھی تک حکیم صاحب کی دوا پی رہی ہوں، ثقیل غذا کا پرہیز ہے۔ اب تو تم اس وقت تھوڑے سے میٹھے چاول پکا ڈالو۔ بازار سے آدھ سیر دودھ منگا لینا اور میری چاند اگر ہو سکے تو تھوڑا سا سوجی کا حلوا بھی بنا ڈالنا جھٹ پٹ، تھوڑی سی بالائی بھی منگا لینا۔”

            مریض کو خود غذا ملی ہو یا نہ ملی ہو۔ تمام گھر نے کھانا کھایا ہو یا نہ کھایا ہو مگر اُن کو اپنے حلوے مانڈے سے کام۔ ایک محلہ کی لڑکی کو ساتھ لے آئی ہیں۔ اُس نے لپ جھپ پاندان پر پہنچ ایک بڑی سی گلوری بنا گال پھلا لیا اور جلدی جلدی چباتی ہوئی دور کو نہ میں جا کر نیچے کا ہونٹ باہر پھیلا پھیلا کر نیچی نظریں کرکے دیکھ رہی ہے کہ پان رچ گیا یا نہیں اور پھر مکان کی سفید دیواروں پر پیک تھوک کر دیکھ رہی ہے کہ لکیر بخط مستقیم یکساں نیچے تک جاتی ہے یا نہیں اگر اتفاق سے خط ٹیڑھا ہوگیا تو دوبارہ سہ بارہ کوشش کی جا رہی ہے۔ غرض جب تک پیک شروع سے آخر تک ایک لائن میں گل کاری نہیں بنائے گی۔ اس وقت تک یہی کوشش جاری رہے گی۔ بس حضرت! یہ اخلاق و عادات، معاشرت اور تہذیب کی حالت ہے۔ لہٰذا وہ ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے جہاں عورتوں کا یہ حال ہو۔ بچہ کی نگہداشت، غور و پرداخت اور تعلیم و تربیت کی معلم اول ماں ہے۔ جب ماں کا یہ حال ہو کہ او خود گم است کر ا رہبری کُند۔ تو فرمائیے کس طرح ہندوستان بہترین  تمدن اور ارتقا حاصل کر سکتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

کنور محمد یٰسین علی خان کی دیگر تحریریں