منٹو محمد حمید شاہد کی نظر میں

یہ تحریر 1434 مرتبہ دیکھی گئی

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب غالب کے شارحین کی طرح منٹو کے شارحین بھی ادبی منظرنامے پر کس قدر نمایاں حیثیت حاصل کر لیں گے۔ اس نکتے پر تو سب کو اتفاق ہے کہ بطور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ بحث ہمیں اس معاملے پر ہو گی کہ کون سے افسانے بہترین ہیں اور کون سے محض خواندنی یا گوارا۔ تکرار ختم نہ ہو سکے گی کیوں کہ نقاد ہوں یا قاری ہر ایک کے پاس پسند اور ناپسند کا ذاتی پیمانہ ہوتا ہے۔ جن افسانوں کو بعض افراد اچھا قرار دیں گے انھیں کو دوسرے پڑھنے والے ناک بھوں چڑھا کر گوارا کہیں گے۔
محمد حمید شاہد کی یہ کتاب پہلے 2013ء میں شائع ہوئی تھی۔ اول اول انھیں بھی شمس الرحمٰن فاروقی کی طرح یہ خیال تھا کہ منٹو کو نقاد کی ضرورت نہیں (گویا میر تقی میر کو تھی)۔ اس خیال کے پیچھے کوئی منطق نہیں تھی۔ ہر برے شاعر اور فکشن نگار کے ارد گرد تنقیدی آرا کا حصار موجود ہے۔ منٹو کیسے بچ سکتے تھے۔ اس کے علاوہ حمید شاہد کو محسوس ہوا کہ منٹو کے فن کی بعض تعبیریں محسنات میں شامل نہیں بلکہ مغالطوں کو جنم دے رہی ہیں تو اپنی پرانی کتاب کو اضافوں کے ساتھ دوبارہ چھپوانا ضروری سمجھا۔ کچھ تحریک انھیں فاروقی کی تنقید سے حاصل ہوئی جس میں منٹو کے بعض افسانوں کو اچھا اور بعض کو معمولی بتایا تھا۔ فاروقی صاحب نے منٹو کے تمام اچھے افسانوں پر اظہارِ خیال نہیں کیا تھا۔ مثلاً بہت مشہور افسانے “ٹوبہ ٹیک سنگھ” پر توجہ نہیں دی تھی۔ حمید شاہد فاروقی صاحب کے استدلال سے مرعوب نہیں ہوئے اور ان کی بعض آرا کو غیر منصفانہ اور نامناسب قرار دیا۔ خاص طور پر “کھول دو” پر فاروقی صاحب نے جو گرفت کی تھی وہ حمید شاہد اور محمد عمر میمن کی تشریح کے بعد خاصی ڈھیلی پڑ گئی ہے۔ فاروقی صاحب نے ممتاز شیریں پر طنز کیا تھا کہ وہ اپنی علمیت کا بے جا مظاہرہ کرتی تھیں۔ خود فاروقی صاحب بھی علم و فضل کا مظاہرہ کرتے رہتے تھے جس کا نمونہ “بو” پر ان کے تبصرے میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اور جو کہا گیا ہے اس کا افسانے سے یونہی سا تعلق ہے۔ انھوں نے منٹو، میر اور شیکسپیئر کو تقریباً ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ تینوں میں اس کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں کہ وہ اپنے اپنے دائروں میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اس تقابل سے منٹو کے فن میں کوئی بڑائی پیدا ہوتی ہے نہ کمی۔ اور جہاں تک میر ار شیکسپیئر کا تعلق ہے تو یوں لگتا ہے جیسے انھیں زبردستی کھینچ کر پہلو میں بٹھا دیا گیا ہے۔ فاروقی صاحب منٹو کے بارے میں جب یہ کہتے ہیں کہ “منٹو صاحب کی نثر درحقیقت زود نویسی ۔۔۔ کے باعث انجام اور استعارے کی چمک سے محروم ہے۔۔ یا “انھیں افسانہ بنانے کی فرصت نہیں تھی” یا “منٹو صاحب کو صبر کہاں تھا جو افسانہ اور کردار میں کچھ تو مطابقت پیدا کرتے” تو سوچنا پڑتا ہے کہ اتنی بے پروائی برتنے والا بڑا فکشن کیسے لکھ سکتا ہے۔
“ٹوبا ٹیک سنگھ” پر جو غلط سلط تنقید ہوتی ہے وہ، حمید شاہد نے ثابت کیا ہے کہ افسانے کو بے پروائی سے پڑھنے کا نتیجہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر کسی کو منٹو پر اظہارِ خیال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید منٹو کی شہرت کو مدِنظر رکھ کر سوچتے ہوں کہ اگر کچھ نہ لکھا، الٹا سیدھا ہی سہی، تو بے خبر کہلائیں گے۔ حمید شاہد نے ریوتی شرن شرما کی خوب خبر لی ہے جس نے منٹو پر احمقانہ اعتراض کیے ہیں۔ جس شخص کی معلومات اتنی ناقص ہوں اور جو “سٹیٹ” اور “حکومت” کے فرق کو بھی نہ سمجھتا ہو اس سے معقولیت کی توقع رکھنا ہی بیکار ہے۔
اگر وہ خط ہی پڑھ لیے جائیں جو منٹو نے چچا سام کے نام لکھے تو اس کی ذہانت اور دور بینی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ستر سال پہلے ہی چچا سام کی، نئے بہروپ میں، استعماریت کو بھانپ لیا تھا۔ منٹو نے لکھا ہے کہ “کچھ بھی ہو مجھے اطمینان نصیب نہیں ۔ میں کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوں۔ ہر شے میں مجھے ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ میں خود میں اپنے آپ کو نامکمل سمجھتا ہوں۔” یہ کس طرح کی بے اطمینانی ہے؟ ہم اسے کیا نام دیں؟ کیا اصل میں یہی انسانی مقدر ہے؟
منٹو آج بھی زندہ ہے از محمد حمید شاہد
ناشر: بک کارنر، جہلم
صفحات: 188؛ چار سو روپیے