معنویت کی تلاش

یہ تحریر 1027 مرتبہ دیکھی گئی

محمد حسن عسکری ان خوش نصیب نقادوں میں ہیں (بشرطے کہ انھیں روایتی معنی میں پروفیسرانہ یا عالمانہ شان کا حامل نقاد نہ سمجھا جائے) جن کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ شاید اردو کے کسی اور نقاد پر اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ ان کے غالی مداح بھی موجود ہیں اور نیم مخالف بھی۔ ایک خیال یہ بھی ہے، جو خاصا عام ہے اور پوری طرح صحیح معلوم نہیں ہوتا، کہ وہ مستقل مزاج نہ تھے۔ اپنی رائے بدلتے رہتے تھے ۔ پہلے جن باتوں کو قبول کرنے یا گوارا سمجھنے میں انھیں مضائقہ نہ تھا، بعد میں شد و مد سے ان کے خلاف ہو جاتے۔ ایک زمانے میں کہتے تھے کہ “روایت پھیلنے اور بڑھنے والی چیز ہے” اور “ہمیں تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اردو میں مشرق کو بھی سمیٹ لیں اور مغرب کو بھی” اور “نئی تہذیب تو مشرقی ہوگی نہ مغربی بلکہ انسانی۔” بعد میں انھوں نے اس وسیع مشربی سے کنارہ کر لیا اور مغرب کو، بالخصوص نشاۃ ثانیہ کے بعد کے یورپ کو، گمراہی کا چشمہ قرار دے دیا اور کہا کہ مغرب سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنی ادبی روایات پر تکیہ کرنا ہوگا اور وہ صرف روایتی معاشرے ہی میں پنپ سکتی ہیں۔ روایتی معاشرے سے ان کی مراد وہ معاشرہ تھا جو مابعد الطبیعیات پر قائم ہو۔ یہی بنیادی روایت ہے جو، ان کی رائے میں، کبھی بدلتی نہیں۔ البتہ یہ کہیں نہیں بتایا کہ جو روایتی معاشرہ انتہائی تیزی سے بدلتی دنیا میں شکست وریخت کا شکار ہو چکا ہو اسے پرانی سالمیت سے کیسے ہم کنار کیا جائے۔ شاید یہ کوئی بھی نہیں بتا سکتا اور اب تو اسے محال ہی سمجھنا ہوگا۔

  ڈاکٹر سرور الہدیٰ نے “گم شدہ معنی کی تلاش” کے عنوان سے ایک مفصل کتاب قلم بند کی ہے جس میں عسکری صاحب کی بہت سی تحریروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کیا ہے، اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عسکری صاحب کی تحریریں آج بھی سوچنے سمجھنے، اتفاق یا اختلاف کرنے پر اکساتی ہیں اور شاید اسی لیے ان پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے اور خیال ہے کہ آیندہ بھی لکھا جائےگا۔ ان کے تنقیدی محاکمے جدید اردو ادب کے جسم میں ایک زخم کی طرح ہیں جس کے اندمال کی جتنی بھی کوششیں کی جائیں وہ ہرا ہی رہے گا۔

  سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی تحریروں میں، خواہ انھیں کالم تصور کیا جائے یا تنقید، کوئی بھاری بھرکم پن نہیں پایا جاتا۔ ان کا اسلوب یا نگارش پروفیسرانہ نہیں۔ شاید اسی سادگی کی وجہ سے، کہ نثر سادہ ہے مگر بے رس نہیں، انھیں زیادہ پڑھا گیا ہے۔ اردو ادب کا عام قاری بھی ان کی تحریر کو، خائف ہوئے بغیر، پڑھ سکتا اور لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ یہ بات کم نقادوں کے حق میں کہی جا سکتی ہے۔ دوسری خوبی یہ کہ ادب کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس میں، اپنی باریک بینی کے سبب، ایسے معانی کی طرف بھی اشارے کر جاتے ہیں جن پر پہلے کسی نے دھیان نہیں دیا تھا۔ ان کے الفاظ چونکا دیتے تھے اور جب ہم چونک جائیں یعنی ہمیں روزمرہ کی روبوٹ نما زندگی سے ہٹ کر، ادب اور زندگی کے تقاضوں کو نئے زاویوں سے دیکھنے کا موقع مل جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔ عسکری صاحب نے کسی موضوع پر کتاب نہیں لکھی، جو بھی دعوے کیے ان کی تائید کی خاطر کوئی مدلل نظام قائم نہیں کیا۔ باتیں سوجھتی رہتی تھیں اور وہ انھیں کہتے چلے جاتے تھے۔ خیالات کی اس آمد و شد میں کوئی ربط نہیں تھا اور ربط کا ہونا ضروری بھی نہیں۔ بس یہ یاد رکھنا لازم ہے کہ جو خیالات بھی ان کے ذہن میں بکھرے ہوئے تھے ان میں اسلوب کی ہم آہنگی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ جب جدیدیت کی گمراہیوں پر ان کی کتاب نظر سے گزری تو میکالی کا خیال آیا۔ میکالی نے مشرقی ادب اور علوم کا مذاق اڑایا تھا۔ لیکن میکالی کا استہزا جہالت پر مبنی تھا کیوں کہ اسے مشرقی ادب، فنون اور علوم کا مطلق پتا نہ تھا۔ عسکری صاحب کو مغربی ادب اور فنون سے گہری آگاہی تھی اور انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ مغرب کو کن خرابیوں کی بنا پر رد کر رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے بھی، جس طرح میکالی نے مشرقی علم و ادب کو قابلِ حقارت سمجھا تھا، مغرب کی ہر بات کو آخر مردود ٹھیرایا۔

ڈاکٹر سرور الہدیٰ جامعہ ملیہ، دہلی، میں اردو کے پروفیسر ہیں۔ ان کی تصنیف کا خاص پہلو نثر کی سادگی اور متانت ہے۔ اس اسلوب میں انھوں نے، اغلب یہی ہے، عسکری صاحب کی متابعت کی ہے۔ رنگیں بیانی، جذباتیت اور غلو کو کہیں دخل نہیں۔ اگر عسکری صاحب کے بعض ارشادات پر صاد کیا جائے تو وہاں مبالغے سے بالکل پرہیز کیا گیا ہے۔ جہاں اختلاف کا اظہار ہے تو وہاں بھی وہ شائستگی کے دائرے سے باہر نہیں ہوتے۔ عسکری صاحب کا احترام ملحوظ رکھا ہے لیکن عقیدت مندی سےدامن بچا لیا ہے۔ بس ایک کسر رہ گئی۔ عسکری صاحب چوٹیں بھی کر جاتے تھے، چٹکیاں بھی لیتے تھے اور ان کا طنز خاصا کٹیلا ہوتا تھا۔ اس کی بہترین مثال وہ خط ہے جو انھوں نے ڈاکٹر تاثیر کے خلاف لکھا تھا۔ سو یہ استدعا ہے کہ سرور الہدیٰ متانت کا لبادہ ہی نہ اوڑھے رہیں۔ کبھی کبھار گپتی بھی چلا لیا کریں۔

سرور الہدیٰ کہتے ہیں کہ عسکری صاحب کے بارے میں بہت سی آرا نامکمل مطالعے پر مبنی ہیں۔ اپنے مطلب کی چیزیں پڑھ کر حق میں یا خلاف فیصلہ سنا دیا۔ یہ جزوی خواندگی کسی سنجیدہ نقاد کو زیب نہیں دیتی۔ جہاں تک اول تا آخر آرا بدلتے رہنے کا تعلق ہے تو سرور الہدیٰ بتاتے ہیں کہ وہ تمام رجحانات جو آخری دور میں کھل کر سامنے آئے ان کے بیج ان کی ابتدائی تحریروں میں بھی موجود ہیں۔ غور سے پڑھنا شرط ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے یہ رجحانات دبے دبے اور بے ہیئت سے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے خدوخال واضح ہوتے چلے گئے۔ چنانچہ انھوں نے پٹریاں تو بدلی ہیں لیکن سفر ایک ہی سمت میں جاری رہا ہے۔ اگر وہ دس پندرہ سال اور جیتے تو کس حد تک بدلتے یا بالکل نہ بدلتے اس بارے میں جو کہا جائے گا وہ بے معنی ہوگا۔

سرور الہدیٰ کی کتاب خاصی جامع ہے۔ اس کا کچھ اندازہ عنوانات سے لگایا جا سکتا ہے، جیسے عسکری کا تصورِ روایت، عسکری کی نظریاتی تنقید، ادب اور معروضیت، ادب اور فنونِ لطیفہ، فکشن، نثر اور جدید نظم سے متعلق خیالات، میر اور غالب پر تنقید۔ ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ امید رکھی جا سکتی ہے کہ سرور الہدیٰ نے اپنا تنقیدی سفر جاری رکھا تو اس سے اردو ادب کا بھلا ہوگا۔

بعض بیانات جو کتاب میں ہیں وہ درست نہیں معلوم ہوتے ہیں اور محض اس وجہ سے کہ انھیں کسی طور ثابت  نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً سرور الہدیٰ کہتے ہیں: “کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر تقسیم کا سانحہ نہ ہوتا تو اور ملک کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر نہ ہوتی تو عسکری مذہبی اور دینی روایت کو ادب کی اصل روایت قرار نہیں (کذا) دیتے؟” اس قماش کی خیالی باتوں سے بچنا چاہیے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان متحد رہتا تو کیا بالآخر عسکری صاحب کی رسائی رینے گینوں اور مولانا اشرف علی تھانوی تک نہ ہوتی؟

آخر میں وہی سوال رہ جاتا ہے جو سلیم احمد نے کیا تھا اور عسکری صاحب اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے تھے۔ سرور الہدیٰ کی کتاب کی حیثیت بھی ایک مسلسل سوال کی سی ہے جس کا جواب نہیں ملتا۔ البتہ باری باری بعض گوشے روشن ہوتے جاتے ہیں۔ سلیم احمد نے پوچھا تھا کہ اب مغرب ہمارے رگ و ریشے میں رچ بس چکا ہے تو اسے کھرچ کر اپنی ذات سے خارج کیسے کیا جائے تاکہ ہم ازسرِ نو اپنی ادبی اور معاشرتی حیثیت میں کسی ایسی اکائی تک پہنچ جائیں جس پر غیر کا سایہ نہ ہو؟ عسکری صاحب نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ سچ یہ ہے کہ اس کا کوئی جواب اب شاید ممکن ہی نہیں۔

 افسوس ہے کہ کتاب کے پروف احتیاط سے نہیں پڑھے گئے۔ غلطیاں بہت ہیں۔ اس کی ذمہ داری  ناشر پر عائد ہوتی ہے۔

گمشدہ معنی کی تلاش از ڈاکٹر سرور الہدیٰ

ناشر: صریر پبلی کیشنز، راولپنڈی

صفحات: 344 ؛ آٹھ سو چالیس روپیے