محمد سلیم الرحمٰن کی رِلکے کے لیے نظم

یہ تحریر 2323 مرتبہ دیکھی گئی

زندگی بھر یہ غمگین احساس اس پر مسلط رہا کہ اس کا گھر نہیں۔ صرف وسیع، کشادہ اور ہوادار میدان اسے اپنے میں جذب کر لیتے تھے۔ ایک گلہ یہ تھا کہ ہمارے سب سے جگمگاتے تجربات لمحاتی ہوتے ہیں۔ وہ بظاہر زندگی کے درمیان رہ کر ہم کلام نہیں ہوتا۔ اس کی آواز بڑی دور سے آتی ہے۔ نظمیں اس نے اپنی ذات کی گہرائیوں میں اتر کر لکھی ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی ذات کی گہرائیوں کی طرف لے جاتی ہیں۔

ہم میں سے ہر کوئی تنہا مسافر ہے۔ رِلکے کی آواز موسم بہار میں، ستاروں اور سمندروں پر نظر جمائے، موسیقی پر کان لگائے، ہم سب تنہا مسافروں سے مخاطب ہے۔

وہ اشیا کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ انھیں اپنی ذات میں سمو لے، ان کی کایا پلٹ کر دے، انھیں اپنی بے خانمائی اور روحانی تشنگی میں بھگو دے تاکہ جب وہ نظموں کے روپ میں زندہ ہو کر دنیا کو لوٹائی جائیں تو خود بھی شاعر کی طرح بے چین رہیں اور کوئی غیر ارضی روشنی بکھیریں۔

موت کی یہ جاودانی، زندگی کی بے کرانی!

کون ہے جو موت کو رکھتا ہے زندہ، زندگی کے لِم کو پنہاں؟

کون سو پردوں میں چھپ کر کرتا رہتا ہے پریشاں اور حیراں؟

پھول پتے اور چہرے ہیں سبھی جس کی نشانی

_________

کون سے اُجلے  پروں والے فرشتے دن کو کر جاتے ہیں روشن؟

کس کی دُھن میں چہچہاتے ہیں پرندے، کس کے دفتر ہیں یہ پتّے؟

کس لیے رَس ہے پھلوں میں، کس لیے یہ شہد کی مکّھی کے چھتّے؟

اور سمجھ سے دور، اَربوں نُور کے برسوں پہ تاروں کے نشیمن؟

_________

جاگتے سوتے میں میرے گرد کتنے ہی اشارے

میرے ہاتھوں میں ہوا اور آگ، مٹی اور پانی

کے قلم ہیں جن سے لکھتا ہوں کوئی اَت گت کہانی۔

میرے لفظوں کو سہارا دے رہے ہیں کتنے اَن دیکھے ستارے۔

_________

اے مرے نادیدہ شاعر، آ کہ خلوت انجمن ہو۔

آ کہ تیرے کشف سے حیرت زدہ لفظوں کا گھر ہو۔

نظم کے خالی قفس میں اَدھ کُھلا سا ایک دَر ہو۔

آفتابی جگمگے آنکھوں میں ، دل میں کوئی مہتابی چمن ہو۔

محمد سلیم الرحمٰن نے نظم کے پہلے بند میں رِلکے کی ذات میں موجود اسرار کو بیان کیا ہے۔ خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات میں زندگی اور موت ساتھ ساتھ ہیں۔ جس نے زندگی دے کر جینے کا ہنر دیا۔ اسی نے موت دے کر ان دیکھی ان چھوئی سرزمینوں کی طرف بھیج دیا۔ زندگی اور موت کے بیان میں انفرادیت ہے۔ ہم زندگی میں اتنا گم ہو جاتے ہیں کہ موت ہمیں یاد نہیں رہتی۔ زندگی کو سانس سے اپنے موجود ہونے کا پتا چلتا ہے جب کہ موت، موت کے لیے زندگی ہے۔ زندگی کا اختتام موت کے لیے اس کے ہونے کا احساس ہے۔ اگر زندگی ہمیشہ رہے گی تو موت کو موت آ جائے گی۔ زندگی سے موت کا اور موت سے زندگی کا آمنا سامنا ایک بار ہوتا ہے۔ اس درمیان وقفے کے اور چھور کا کسی کو اندازہ نہیں۔ زندگی اور موت کو ان کے بنانے والے نے اپنے اپنے مدار میں رکھا ہوا ہے۔ موت زندگی کی مدد سے زندہ ہے جب کہ زندگی کا لِم ایک چھپا ہوا راز ہے۔ جس کی بابت پوچھا نہیں جا سکتا کہ کون کتنا عرصہ زندگی کا ذائقہ چکھے گا اور کب موت اس کو آئے گا۔ اسرار کی کائنات ہے۔ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ ایک مظہر میں دوسرے مظہر کی زندگی ہے۔ ایک کا خاتمہ دوسرے کا آغاز ہے۔ اس نے پھول، پتے، چہرے بنائے جو اس کی صناعی کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس بند کے چاروں مصرعوں میں حیرت کا بیان ہے۔ حیرت جسے یونانی جملہ علوم کی ماں کہتے تھے۔ حیرت جس سے رِلکے کا خمیر اُٹھایا گیا تھا اور اس کی ساری زندگی رازوں کی کھوج میں بسر ہوئی۔

کون سے اُجلے  پروں والے فرشتے دن کو کر جاتے ہیں روشن؟

کس کی دُھن میں چہچہاتے ہیں پرندے، کس کے دفتر ہیں یہ پتّے؟

کس لیے رَس ہے پھلوں میں، کس لیے یہ شہد کی مکّھی کے چھتّے؟

اور سمجھ سے دور، اَربوں نُور کے برسوں پہ تاروں کے نشیمن؟

اس بند میں راز کا بیان زندگی اور موت کے پُراسرار بیان کے بعد، موجودات میں موجود بھید کو جاننے کی منزل کی سمت بڑھ جاتا ہے۔ دن کی روشنی، پرندوں کے گیت، پتوں کے بچھونے، پھلوں میں رَس، شہد کی مکھی کا چھتا اور تاروں کی بلندی۔ راز کے اندر راز بھر دیا گیا ہے۔ رات کے بعد دن میں روشنی کون آ کر بھر دیتا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح پرندے اپنی آوازوں میں کس خوشی کا یا غم کا ترانہ پڑھ رہے ہیں۔ کچھ پتا نہیں چلتا کچھ پتا نہیں چلتا۔ زمین میں بیج بویا جاتا ہے وہ پودا بنتا ہے۔ اس پر پھل لگتا ہے اور پھل میں رس ہوتا ہے۔ کبھی کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ آیا ہو اور اس نے اس میں رس بھر دیا ہو۔ شہد کی مکھی کہاں کہاں سے رَس پی کر آتی ہے اور چھتے کو ثمر آور کر دیتی ہے۔ زمین سے اوپر تارے ایک مسلسل سوال ہیں۔ پتا نہیں کب سے ہیں، کب تک رہیں گے۔ نہ تھکتے ہیں نہ ہٹتے ہیں۔ اپنے اپنے وقت میں رواں ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ آدمی سوچ ہی سکتا ہے۔ اور آخر میں ایک جذبہ اس کا حاصل ٹھیرتا ہے اور وہ حیرت کا جذبہ ہے، جس کو بقا ہے۔ سوال کے اندر سوال ہے جس کا بہ ظاہر کوئی جواب نہیں۔

جاگتے سوتے میں میرے گرد کتنے ہی اشارے

میرے ہاتھوں میں ہوا اور آگ، مٹی اور پانی

کے قلم ہیں جن سے لکھتا ہوں کوئی اَت گت کہانی۔

میرے لفظوں کو سہارا دے رہے ہیں کتنے اَن دیکھے ستارے۔

اس بند میں راز کی دنیا میں کیے جانے والے سفر کی جانب ایک منزل آگے بڑھتی ہے۔ اب جاگنے اور سونے کا راز ہے۔ زندگی اور موت کو محسوس کرنا ہو تو نیند اور بیداری بڑا وسیلہ ہو سکتا ہے۔ ہم رات کو کچھ وقت کے لیے مر جاتے ہیں اور دن کو زندہ ہو جاتے ہیں۔ اس امر کا بیان قرآن کریم میں موجود ہے۔ تیسرے بند کے دوسرے  مصرعے میں عناصر کا بیان ہے اور ان عناصر کے ساتھ ہوا، آگ، مٹی اور پانی کو قلم کہا گیا ہے جس سے کوئی طویل، بے اندازہ کہانی لکھی جا رہی ہے۔ ظاہر میں ہوا، آگ اور پانی سے بنا قلم تو نظر میں نہیں آتا مگر مصوری، نقاشی، شاعری کی طرف دھیان ضرور جاتا ہے۔ ہر کوئی اس دنیا کے سربستہ راز کی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق عقدہ، کشائی کر رہا ہے۔ انسان بنا بھی ہوا، پانی، مٹی اور آگ سے ہے اس کے اندر جتنا راز ہے اور جتنی کوملتا ہے وہ انہی عناصر کے طفیل ہے۔ وہ جب سے ہے تب سے کچھ نہ کچھ لکھے جلا رہا ہے۔ پتا نہیں اس کا یہ سفر کب ختم ہوگا۔ وہ تاروں کے بے اندازہ ہونے سے تھکتا نہیں۔ جیسے وہ روشن ہیں اور دائم ہیں۔ اسی طرح تخلیق بھی روشن رہے گی دائم رہے گی۔

اے مرے نادیدہ شاعر، آ کہ خلوت انجمن ہو۔

آ کہ تیرے کشف سے حیرت زدہ لفظوں کا گھر ہو۔

نظم کے خالی قفس میں اَدھ کُھلا سا ایک دَر ہو۔

آفتابی جگمگے آنکھوں میں ، دل میں کوئی مہتابی چمن ہو۔

آخری بند میں محمد سلیم الرحمٰن اپنے من میں اپنے محبوب شاعر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کر رہے۔ وہ شاعر جسے دیکھا نہیں لیکن اس کی تخلیقات میں مدتوں گم رہے۔ جس سے اپنی خلوت کو انجمن بنائے رکھا۔ رِلکے کے کشاف ذہن سے لفظ میں حیرت سمونے کا سراغ ملا۔ جو لفظوں کے گھروں میں زندگی گزارتے ہیں ان کے لیے کشف کی دستک نعمت ہوتی ہے۔ وہ کشف دستک دیتا ہے ایسا لگتا ہے وجود میں کوئی نیم وا در کھل گیا ہو جس نے آنکھوں میں اور دل میں روشنی بھر دی ہو۔ یہاں شاعری کی عطا کا بیان ہے کہ اچھا شعر جسم کو مادے سے رہائی دلا دیتا ہے اور تھوڑے وقت کے لیے انسان بے خودی میں چلا جاتا ہے۔ آنکھ میں نور بھر جاتا ہے اور دل میں خوشی کا باغ کھل جاتا ہے۔ ایسا سب رِلکے کے روشن سراپے سے ممکن ہوا ہے جس کے بیان میں محمد سلیم الرحمٰن کے قلم نے وارفتگی دکھائی ہے۔ انبساط کی یہ کیفیت اس قلم میں اس طرح کے کسی فرد کے اوصاف کے بیان میں کم بلکہ بہت کم آتی دیکھی ہے۔ ٹھیک بھی ہے درد نصیبوں کا درد نصیبی سے بڑھ کر اور کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/