مترجم کو ہر صورت اصل متن سے وفادار رہنا چاہیے

یہ تحریر 2809 مرتبہ دیکھی گئی

شاہد حمید کے ساتھ گفتگو

ٹالسٹائی کے “وار اینڈ پیس” اور دستوئیفسکی کے “برادرز کرامازوف” جیسے عظیم ناولوں کو اردو میں منتقل کرنے والے ممتاز مترجم شاہد حمید کا احوال زیست

ٹالسٹائی کے ناول “وار اینڈ پیس” اور دستوئیفسکی کے ناول “برادرز کراما زوف” کا شمار دنیا کے عظیم ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ دونوں کی اشاعت کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا، اردو میں روسی زبان کی بے شمار تخلیقات کے تراجم ہوئے، لیکن ان دونوں ناولوں کے ترجمہ کے بار نے سبھی پر گرانی کی اور مدتوں ادب کے ان شاہکاروں کا اردو میں ترجمہ نہ ہو سکا، پھر اردو زبان کو خوش قسمتی سے ان ناولوں کو اردو قالب میں ڈھالنے کے لیے ایسا باکمال مترجم ملا جس نے ان ناولوں کا بے مثل ترجمہ کیا اور اسے تخلیق کی سطح کے قریب لے گیا۔ اتنے ضخیم ناولوں کا ترجمہ اس پر مستزاد حواشی کے سلسلے میں کی گئی تحقیق دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ فرد واحد کی کاوش اور عزم کا نتیجہ ہے۔ لاریب شاہد حمید نے جو کام کیا وہ اداروں کے کرنے کا کام تھا، وہ اب بھی جو کام کر رہے ہیں یعنی انگریزی اردو ڈکشنری کی تدوین کا، وہ بھی اداروں کا ہی کام تھا، جس کا بوجھ تن تنہا اس اسی سالہ شخص نے اٹھا رکھا ہے۔ اردو زبان کے بارے میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو بے اعتنائی کا رویہ چلا آ رہا ہے، قدرت نے اس کی تلافی شاہد حمید جیسے صوفیوں سے ہی کروائی ہے جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کیے بغیر اردو زبان کی ترقی کے لیے کمر بستہ ہیں۔

شاہد حمید جالندھر کی تحصیل نکودر کے گاؤں پرجیاں کلاں میں 1928ء میں پیدا ہوئے، والد میاں علی محمد زمینداری کرتے تھے، تحصیل میں مسلمانوں کے 80 گاؤں تھے۔ یہ مساوات پر مبنی معاشرہ تھا، جہاں چودھری اور کمی کا تصور نہ تھا۔ ان کی والدہ کے ماموں نے جو پیشے کے اعتبار سے تو وکیل تھے، علم کا نور پھیلانے کے لیے اسلامیہ ہائی سکول قائم کیا، جس نے علاقے کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ شاہد حمید نے ابتدائی تعلیم اسی سکول سے حاصل کی۔ گاؤں میں تعلیم نسواں پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے یونس ادیب کی کتاب میں لاہور کے بارے میں لکھے گئے دور کا تقابل اپنے علاقے سے کیا تو انھیں اپنا گاؤں زیادہ ترقی یافتہ نظر آیا۔ اس علاقے کے بارے میں تقسیم سے ذرا پہلے ڈان نے اپنے اداریہ میں بطور خاص ذکر کیا کہ اسے لازمی طور پر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔

آٹھ بھائیوں میں سے چار بچپن میں ہی انتقال کر گئے۔ والدہ جب ان کی عمر صرف تیرہ برس تھی فوت ہو گئیں۔ ان کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا کہ چچا سکول ٹیچر، نانا خطیب، تایا خطیب جب کہ خالو نے دینی مدرسہ کھول رکھا تھا۔ مطالعہ کی طرف ان کے شغف کی بڑی وجہ گاؤں میں موجود تین لائبریریاں تھیں، ایک لائبریری مسجد کی تھی جس میں زیادہ تر مذہبی کتب ہوتیں، مڈل سکول کے ہیڈ ماسڑ بڑے باذوق تھے، انھوں نے اس زمانے میں سکول لائبریری کے لیے نول کشور کی شائع کردہ تمام کتابیں خرید رکھیں تھیں، اسی طرح گاؤں کے ایک اآدمی کے پاس ذاتی لائبریری تھی۔ انھیں ان تینوں لائبریریوں سے ذہن کو سیراب کرنے کا موقع ملا۔ میٹرک کے بعد باوجود اس کے کہ اس زمانے میں جالندھر میں چار کالج موجود تھے، وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے آئے اور اسلامیہ کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا۔ اسی زمانے میں ان کی مظفر علی سید سے دوستی ہوئی، جنھوں نے ان کو ادبی محافل میں ساتھ لے جا کر ادب کا چسکا ڈال دیا، زمانہ طالب علمی سے ہی ان کی محفلیں ناصر کاظمی، شیخ صلاح الدین، انتظار حسین اور احمد مشتاق ایسے لوگوں کے ساتھ جمنے لگی۔ صفدر میر سے گورنمنٹ کالج کے دنوں سے یاد اللہ تھی، حلقہ میں عارف عبدالمتین سے تعلق قائم ہوا، امجد الطاف سے بھی گہری دوستی رہی۔ تقسیم کے بعد والد کی مالی حالت کمزور ہوئی تو انھوں نے والد پر بوجھ بننے کے بجائے تھرڈایئر میں جزوقتی طور پر اخبار میں نوکری کر لی۔ وقار انبالوی اس زمانے میں سفینہ کے نام سے اخبار نکالتے تھے، اس میں تیس روپے پر ملازم ہوئے۔ چھ ماہ بعد پروفیسر سرور نے آفاق کے نام سے ماہانہ میگزین شروع کیا تو وہاں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے۔ اس دور میں انھوں نے نامور سیاسی اور ادبی شخصیات سے انٹرویو بھی کیے جن میں منٹو بھی شامل تھے۔ آفاق ماہنامہ سے روزنامہ میں بدلا تو ان کا تبادلہ نیوز روم میں ہو گیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ڈیل کارنیگی کی کتاب کا “پریشان ہونا چھوڑیے، جینا شروع کیجیے” کے نام سے ترجمہ کیا، یہ کتاب ابھی درجنوں پبلشر چھاپ رہے ہیں لیکن بطور مترجم ان کا نام دینے سے گریز ہی کیا جاتا ہے، بی اے آنرز کرنے کے بعد ایم اے کا مرحلہ آیا تو پہلے انھوں نے ایم اے اردو میں داخلہ لیا، کچھ دن بعد ایم اے اکنامکس کرنے کی سوجھی، چند ہی دن میں اس سے بھی جی بھر گیا، اس کے بعد انھوں نے جی سی میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا، جہاں سے وہ 1953ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ ایم اے انگریزی کے امتحان سر پر پہنچے تو اخبار سے علیحدگی اختیار کر لی تاکہ پڑھائی پر توجہ مرکوز کر سکیں۔ اگلا پڑاؤ زمیندار تھا، جہاں انھیں ان کے دوست علی سفیان آفاقی لے گئے۔ زمیندار میں ملازمت کے دوران ان کا تقرر اسلامیہ کالج فیصل آباد میں بطور لیکچرار ہو گیا، وہاں کچھ عرصہ رہنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا اور ایمرسن کالج ملتان میں ان کی بطور لیکچرار پوسٹنگ ہو گئی، چار برس وہاں رہنے کے بعد تبادلہ ساہیوال کرا لیا، کیونکہ تقسیم کے بعد ان کے رشتہ دار وہاں جا آباد ہوئے تھے۔ 1959ء سے 1975ء تک وہ ساہی وال میں رہے، اس کے بعد انٹرکالج میلسی میں بطور پرنسپل ان کا تقرر ہوا، چھ ماہ وہاں رہنے کے بعد محکمہ تعلیم سے متعلق سیکشن میں لاہور سیکریٹریٹ میں تبادلہ ہو گیا۔ 1978ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے جہاں سے 1988ء میں ریٹائر ہوئے۔

“وار اینڈ پیس” کے ترجمہ کے خیال نے کیسے جنم لیا؟ “

“ایم اے میں جب میں پڑھتا تھا تو ایک دن خواجہ منظور حسین نے جو ہمارے استاد تھے مجھے، مظفر علی سید اور سعید اختر درانی کو بلایا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم تینوں مل کر وار اینڈ پیس کا ترجمہ کریں، یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، سعید اختر چونکہ سائنس کا آدمی تھا اور اس کی مصروفیات کافی تھیں، مظفر اس زمانے میں ویسے ہی اونچی اڑان میں تھا، جبکہ میں خود کو اس وقت ترجمہ کرنے کے قابل نہ پاتا تھا۔ لیکن یہ بات میرے ذہن میں جاگزیں رہی کہ اس کتاب کا ترجمہ ضرور کروں گا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں انگلینڈ چلا گیا، وہاں سے مجھے “وار اینڈ پیس” کے پانچ تراجم ملے۔ شروع میں تو میرا ارادہ تھا کہ باقاعدہ روسی زبان سیکھ کر، اس کو اردو میں منتقل کیا جائے، زبان سیکھنے کا عمل جاری تھا کہ درمیان میں کچھ ایسے مراحل آ گئے جو استاد کی رہنمائی کے بغیر طے نہ ہو سکتے تھے لہٰذا یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا، اور پھر میں نے انگریزی سے ہی اس کا ترجمہ کی۔ “وار اینڈ پیس” کے پہلے دو ایڈیشن تو ٹالسٹائی کے زیر نگرانی ہی شائع ہوئے۔ تیسرے ایڈیشن کی اشاعت سے قبل ٹالسٹائی نے کتاب میں بہت سی ترامیم کیں اور جب یہ کام مکمل ہو گیا تو اس نے ترمیم شدہ ایڈیشن اپنے دوست ستراخوف کو بھجوا دیا تاکہ وہ اس کی اشاعت کا بندوبست کر سکے۔ کتاب کی طباعت کے دوران دونوں میں خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ ستراخوف نے غضب یہ کیا کہ ٹالسٹائی کو بتائے بغیر وہ اس کی کتاب میں قلم لگاتا رہا، اس نے جو تبدیلیاں کیں وہ بنیادی طور پر زبان کے متعلق تھیں۔ 1873ء میں جب ناول کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں ٹالسٹائی اور ستراخوف دونوں کی ترامیم شامل تھیں۔ بعد میں ناول کی اشاعر کے بعد چند ایسی دستاویزات مل گئیں جس میں نہ صرف ٹالسٹائی کے تیسرے ایڈیشن کے سلسلے میں ستراخوف کو لکھے گئے خط شامل تھے بلکہ دوسرے ایڈیشن کے جس نسخے پر ٹالسٹائی اور ستراخوف کی ترامیم تھیں، وہ بھی مل گیا۔ نئے نسخے کی تیاری کا کام مادام زیدین شنور کے سپرد ہوا جس نے اپنے نسخے کی بنیاد 1868-1869ء کے ایڈیشن ، جس میں تمام اضافے ٹالسٹائی کے اپنے قلم سے تھے پر رکھی، اس کے علاوہ 1873ء کا نسخہ بھی اس کے پیش نظر رہا، جس میں اس نے وہی ترامیم قبول کیں جن کا سزاوار خود ٹالسٹائی تھا۔ 1963ء میں زیدین شنور کا مدون کردہ نسخہ چار حصوں میں شائع ہوا، میں نے اس نسخے کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا ہے۔

باقی پانچ ترجمے جو میرے پیش نظر رہے ان میں ایک تو گمنام ترجمہ تھا جو 19101ء میں چھپا اور بعد میں 1935ء میں اس پر نظرثانی ہوئی، یہ ترجمہ خاصا گنجلک اور اس میں مترجم نے کافی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ دوسرا ترجمہ گارنیٹ کا ہے، جو بہت اچھی زبان لکھتی ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ روسی زبان اور معاشرے کو سمجھنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ اس کے ترجموں میں خواہ وہ کسی بھی ادیب کے ہوں یکساں اسلوب ہی ملتا ہے۔ تیسرا ترجمہ لوئیس اور ایلمرماڈ کا ہے، یہ دونوں میاں بیوی تھے۔ دونوں کو دوسرے مترجموں پر فوقیت حاصل ہے۔ دونوں طویل عرصے تک روس میں مقیم رہے اور روسی معاشرے کے بارے میں انھیں بے پناہ معلومات حاصل تھیں، دونوں ٹالسٹائی کے حلقہ میں شامل اور اس کے ارادت مند بھی تھے۔ میرے خیال میں ان کا ترجمہ سب سے اچھا ہے۔ روز میری ایڈمنڈز جو کہ انگریزی، روسی، فرانسیسی، اطالوی اور قدیم سلاوی زبانوں کی عالمہ تھی، اس کا ترجمہ جو 1957ء میں پینگوئن کلاسیکس سیریز کے تحت شائع ہوا وہ بھی اچھا ترجمہ ہے، اس کی خوبی یہ ہے کہ جو بات دوسرے تراجم سے واضح نہیں ہوتی اس کے ترجمہ میں واضح ہو جاتی ہے۔ این ڈونیگن کا ترجمہ بھی ماڈ سے متاثر ہو کر کیا گیا ہے۔ انگریزی میں یہ واحد ترجمہ ہے جو مستند روسی ایڈیشن سے مطابقت رکھتا ہے۔”

“میں نے وارڈ اینڈ پیس کے ترجمہ میں کوئی تحریف نہیں کی، اس میں کوئی اضافہ نہ ہی کوئی کمی بیشی کی، نہ ہی کوئی جملہ یا عبارت چھوڑی۔ مجھے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہے اور میں اسے کوئی مثالی ترجمہ نہیں کہتا۔ یہ ترجمہ مجھ سے کسی زیادہ باصلاحیت بندے کو کرنا چاہیے تھا (شاہد حمید صاحب کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں دوران انٹرویو انھوں نے فکری عجز کا بارہا اظہار کیا ایسے معاشرے میں جہاں کچھ نہ کرکے سب کچھ کرنے کا دعویٰ کرنے والے عام ہوں وہاں ایسے آدمی کا وجود غنیمت ہے) میں نے اس کام کا ذمہ اس لیے اپنے سر لیا کیونکہ سو سال گزرنے کے باوجود اردو اس فن پارے سے محروم تھی۔”

ان کے بقول دستوئیفسکی کے ناول “برادرز کراما زوف” کو ترجمہ کرتے ہوئے ایک مشکل جس کا سامنا رہا وہ یہ تھی کہ اگر تو دستوئیفسکی کے ناول “جرم و سزا” کی طرفح اس میں بھی ایک ہی آدمی ہیرو ہوتا تو معاملہ سہل رہتا لیکن میں ایکی ہی نام کے چار کردار اور چاروں ہی اپنی اپنی جگہ یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ ناول کے کرداروں کے نام ہی نہیں بلکہ تصغیرات (diminutive) بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس ناول میں اکثر پیراگراف بہت زیادہ طویل ہیں، پروفیسر میٹ لانے گارنیٹ کے ترجمے کے نظرثانی شدہ ایڈیشن میں انھیں قدرے چھوٹا کر دیا ہے میں نے بھی متعدد مقامات پر اس کی تقلید کی ہے۔

پسندیدہ ترجمہ نگاروں کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ محمد حسن عسکری اور محمد سلیم الرحمان کے تراجم کو وہ وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انتظار حسین کے تراجم بھی انھیں پسند ہیں۔

ناروے کے ادیب جسٹن گارڈر کی کتاب “سوفی کی دنیا” کے ترجمہ کا خیال ان کو یوں سوجھا کہ انگلینڈ میں انھوں نے لندن ٹائمز میں اس کتاب کے بارے میں مضمون پڑھا، نارویجن زبان میں چھپنے والے اس ناول کا اس وقت انگریزی میں ترجمہ نہ ہوا تھا، ایک برس بعد جب انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ آیا تو انھیں ناول بے حد پسند آیا، زاہد ڈار کو پڑھنے کے لیے دیا تو انھوں نے ناول کا ترجمہ کرنے کے لیے کہا، شروع میں تو پس پیش سے کام لیا، بعد میں اردو سائنس بورڈ سے بات کی، تو انھوں نے ہامی بھر لی۔ مصنف سے ترجمہ کی اجازت کے لیے رابطہ ہوا تو انھوں نے اپنے ہاں کی صورت حال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بندے نے وار اینڈ پیس کا ترجمہ بھی مفت کیا تھا۔ ان کے خط کے جواب میں ایجنٹ اور ایڈیٹر نے بتایا کہ اب تک “سوفی کی دنیا” کا اکتالیس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، اردو دنیا سے آپ رابطہ کرنے والے پہلے شخص ہیں۔ ان کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والی یہ کتاب فن لینڈ میں سب سے کم تعداد یعنی پچیس ہزار چھپی تھی۔ جب ان کو بتایا گیا کہ یہاں تو ہزار کی تعداد میں کتاب شائع ہو گی تو انھوں نے ساڑھے بارہ فیصد رائلٹی کے بدلے اس کی اشاعت کی اجازت دے دی۔

ان کا کہنا ہے کہ جین آسٹن کی کتاب “تکبر اور تعصب” کے ترجمہ کے بارے میں جو چیز محرک بنی وہ برطانیہ میں ہونے والا ایک سروے تھا جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہاں کے لوگ اگرچہ “وار اینڈ پیس” کو سب سے بڑا ناول گردانتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ پڑھتے “تکبر اور تعصب” ہی ہیں۔ ان کے بقول یہ بڑی کتاب ہے، اس کی نثر باکمال ہے۔ ناول کا ادب میں بھی کافی مقام ہے، زبان پرانی ہونے کی وجہ سے مشکل ضرور ہے لیکن انگریزی ادب کا استاد ہونے کے ناتے طویل عرصے تک اس کو پڑھانے کی وجہ سے ترجمے میں خاص دشواری پیش نہیں آئی۔

شاہد حمید کے بقول ایڈورڈ سعید کی کتاب “مسئلہ فلسطین” کا ترجمہ کرنے کی ترغیب انھیں محمد سلیم الرحمان نے دی اور پھر ان کے دوست افسانہ نگار محمود گیلانی نے اس کی اشاعت کا بار اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایڈورڈ سعید کی نثر بڑی گنجلک ہے۔ اس کتاب کے ترجمے نے دن میں تارے دکھا دیے۔

شاہد حمید جو بی اے میں رشتہ ازواج سے منسلک ہوئے ان کی بیوی کا انتقال 1990ء میں ہوا۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ لاہور میں مقیم بڑا بیٹا خالد حمید نامور کارڈ یک سرجن ہے۔ چھوٹا بیٹا طاہر حمید جس نے یونیورسٹی آف کیلے فورنیا سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے آسٹریلیا میں رہتا ہے، ان کی بیٹی بھی انگلینڈ میں قیام پذیر ہے۔

اس ممتاز ترجمہ نگار کا کہنا ہے کہ اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے جن مشکلات کا سامنا کرنا  پڑتا ہے: “ان میں سب سے پہلی مشکل تو جملوں کی ہے، اردو دراصل چھوٹے چھوٹے  جملوں کی زبان ہے اور بڑے جملوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر بھی، جملہ ط ویل ہو جائے تو اس کی سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ انگریزی میں طویل جملے ہوتے ہیں مثلاً روہنسن کروسو کے مصنف ڈنئیل ڈیفونے تو پورے پورے صفحہ کا جملہ لکھ دیا ہے۔ طویل جملے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا قاری کے ذہن میں جو تصویر بٹھانا چاہتا ہے، اس کو وہ ٹکروں کے بجائے سالم کا سالم پیش کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ جزئیات کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے اس وہ اوقاف کا سہار لیتا ہے، اردو میں جب آپ ترجمہ کرنے بیٹھتے ہیں تو طویل جملوں کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں منقسم کرنا پڑتا  ہے جس سے تحریر کا مجموعی تاثر غائب ہو جاتا ہے اور بعضے ایسا بھی ہوتا ہے کہ منطقی تسلسل بھی قائم نہیں رہتا۔ میں نے وار اینڈ پیس میں کئی جگہ بڑے جملے لکھنے کا تجربہ کیا لیکن اب مجھے بھی وہ بوجھل محسوس ہوتے ہیں۔

دوسرا بڑا مسئلہ رموز و اوقاف کا ہے ہمارے ہاں ان کا رواج نہیں، اردو اخبارات کو ہی لیجیے اکثر اوقات پورے پورے کالم میں کوئی علامت نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے سمجھ میں نہیں  آتا کہ جملہ ختم کہاں ہوا ہے اور شروع کہاں سے ہوا ہے۔ قرآن پاک میں بھی رموز و اوقاف کا بڑا مقام ہے اس لیے بہت سے طویل آیات نظر آتی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ فارسی، عربی اور اردو کے ادیبوں نے اس اہم مسئلے سے چشم پوشی کا رویہ کیوں اخٰتیار کیے رکھا۔ زبانیں ایک دوسرے کے قریب ہوں تو ترجمہ اتنا زیادہ مشکل نہیں رہتا جیسے فارسی اور عربی کی تخلیقات کو اردو میں ترجمہ کرتے وقت اتنی زیادہ دشواری اس لیے نہیں ہوتی کہ جملوں کی ساخت مختلف ہونے کے باوجود اردو کا ذخیرہ الفاظ زیادہ تر انہی دو زبانوں سے آیا ہے لیکن اس کے برعکس مغربی زبانوں کا ترجمہ کرتے ہوئے مشکلات اس لیے زیادہ بڑھ جاتی ہیں کہ یہاں نہ صرف زبانوں کی ساخت اور ذخیرہ الفاظ مختلف ہوتا ہے بلکہ مزاج بھی مختلف ہو جاتا ہے جس سے بعض اوقات ترجمہ کرتے ہوئے مفہوم سمجھنے میں بندہ ٹھوکر کھا جاتا ہے۔

ایک اور مسئلہ جو ترجمہ نگار کو پیش آتا ہے وہ ٹرانسلیٹریشن یعنی دوزبانوں کے الفاظ اپنی زبان میں کس طرح ہجے کیے جائیں کا بھی ہے۔”

شاہد حمید کا شمار ان ترجمہ نگاروں میں ہوتا ہے جو متن سے وفاداری کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترجمہ اصل متن کو بالکل اسی حالت میں اپنی زان میں پیش کرنے کا نام ہے اور مترجم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کرے اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ تحریف کا مرتکب گردانا جائے گا۔

شاہد حمید مراکش کے قصہ گو محمد مرابط کی کہانیوں کے مجموعہ کا “بڑا آئینہ” کے نام سے ترجمہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہیمنگوے کے ناول “بوڑا اور سمندر” فلسطینی ادیب غسان کنفانی کے ناولٹ دھوپ میں لوگ اور جاپانی کہانیوں کو بھی اردو کے روپ میں پیش کر چکے ہیں۔

شاہد حمید کو عالمی ادب میں انیسویں صدی کا روسی ادب بڑا پسند ہے جس میں ٹالسٹائی، چیخوف، پشکن، ترگنیف، گاگول، لرمنتوف، دستوئیفسکی ایسے بڑے لکھنے والے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسپنوزا، ایملی زولا، بالزاک، فلوبیئر، وکٹرہیوگو، فیلڈنگ، کولرج اور آرنلڈ بھی ان کے پسندیدہ مصنفین میں شامل ہیں۔ اردو میں جن ادیبوں کی تحریروں کو بار بار پڑھنے کو وہ آمادہ پاتے ہیں ان میں وہ حسن عسکری، مجید امجد، منٹو، فیض اور محمد سلیم الرحمان کا نام لیتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد اور علامہ راشد الخیری کی زبان دانی کی وہ بہت قائل ہیں۔

ان کے بقول آصف فرخی کی خواہش ہے کہ وہ ٹالسٹائی کے ناول “حاجی مراد” کا ترجمہ کریں، جب کہ نیر مسعود مصر ہے کہ ایملی برونٹی کی کتاب و درنگ ہائٹس کا ترجمہ کروں۔ شہزاد احمد دستوئیفسکی کے ناول “شیطان” کا ترجمہ کروانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے کراما زوف برادران سے بھی پہلے اس ناول کا ترجمہ کرنا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ارادہ تو ہے کہ مزید کتابوں کو اردو کا جامہ پہنایا جائے لیکن اس وقت انھوں نے اپنی تمام تر توجہ ڈکشنری پر مرکوز کر رکھی ہے۔ اپنی ڈکشنری کی امتیازی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ “قوسین انگریزی اردو لغت جس پر میں آج کل کام کر رہا ہوں اس کی نظرثانی کی ذمہ داری محمد سلیم الرحمان ادا کر رہے ہیں۔ اس ڈکشنری میں طالب علموں اور عام قارئین کی ضروریات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس کی پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ یہ لغت صرف ایک انگریزی لغت کو سامنے رکھ کر تیار نہیں کی گئی، اس کی تیاری کے لیے کئی لغات سے مدد لی گئی ہے یہاں تک کہ سلینگ کی بھی کئی لغات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ اس میں درج الفاظ اور محاوروں کی تعداد بھی باقی مروجہ انگریزی اردو لغات سے زیادہ ہے۔ دوسرے  ہر اہم لفظ یا محاورے کی انگریزی جملوں کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے۔ بعض موضوعات کی تفصیلی وضاحت موجود ہے۔ تیسرے وہ انگریزی الفاظ بھی درج ہیں جو صرف پاکستان اور بھارت میں مستعمل ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں نہیں اور نہ ہی بالعموم انگریزی لغات میں ان کا اندراج ہے۔ لغت کو اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ  ہر لفظ خواہ وہ اسم ہو یا فعل، اسم صفت ہو یا معین فعل، معنی کی تفہیم قاری کے لیے نہایت آسان ہوگی۔ گرامر کی باریکیوں کی بھی پوری وضاحت کی گئی ہے۔ بیشتر الفاظ کو جملوں میں استعمال کرکے بھی دکھایا گیا ہے۔”