ادیب کو چاہیے کہ خود کو دہرانے کے بجائے فکر میں تازگی کا انتظار کرے

یہ تحریر 1977 مرتبہ دیکھی گئی

معروف افسانہ نگار محمود گیلانی سے مکالمہ

فکشن بغیر تحقیق کے نہیں لکھا جا سکتا

تخلیقِ ادب کے لیے ادیب براہِ راست تجربے کا محتاج نہیں

نقاد کو تحریر سے سوال کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے

پاکستان کے موجودہ حالات تخلیقی ادب کے لیے آئیڈیل ہیں

شمس الرحمان فاروقی کے ناول “کئی چاند تھے سر آسماں” سے اردو ادب میں نئی راہیں کھلیں گی

لاطینی امریکہ کے ادب میں سب سے زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے

مولانا روم کے سچے عاشق، 23 برس تک ہر ہفتے مثنوی مولانا روم کی خواندگی کا اہتمام کرنے والے اس افسانہ نگار نے اپنی کتاب “پیچ در پیچ زمین” کا نام بھی مثنوی مولانا روم سے مستعار لیا ہے۔ یہ ہیں سرزمین بہاولپور سے تعلق رکھنے والے محمود گیلانی جو 11 اگست 1946ء کو پیدا ہوئے۔ والد فوج میں کرنل تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں ملایا لڑنے گئے، دو سال تک ان کی کوئی خیر خبر نہ تھی کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں، والدہ نے پریشانی کے عالم میں برصغیر کی کوئی درگاہ نہ چھوڑی، جہاں شوہر کے لیے دعا نہ کی ہو، اجمیر سے آنے کے بعد ان کو یقین ہو چکا تھا کہ ان کے شوہر زندہ ہیں اور ان سے ملاقات ضرور ہوگی۔ دعا مستجاب ہوئی اور وہ زندہ سلامت گھر والوں سے آن ملے۔ محمود گیلانی نے ابتدائی تعلیم بہاولپور سے حاصل کی۔ میٹرک ٹیکنیکل سکول سے کیا جو اس دور کے بہترین سکولوں میں شمار ہوتا تھا۔ انٹرمیڈیٹ ایس ای کالج سے کیا۔ یہ وہ درس گاہ ہے جہاں سے اردو کے دو ممتاز ادیب محمد خالد اختر اور احمد ندیم قاسمی بھی فارغ التحصیل تھے۔ آٹھویں جماعت میں انھیں وظیفہ ملا جو میٹرک تک جاری رہا۔ زمانہ طالب علمی میں انھوں نے غیرنصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ والدین کے اصرار پر انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ پی ایم اے گئے تو انھیں وہاں کا ماحول پسند نہ آیا، مجبور ہو کر والدہ کو خط لکھا کہ میں فوج چھوڑنا چاہتا ہوں، والدہ نے جواب میں لکھا تم پسند کرو یا نہ کرو، میں ایک سپاہی کی بیوی ہوں، میرے جذبے کی لاج رکھو۔ یہ وہ دور تھا جب جنگ ستمبر شروع ہونے والی تھی۔ بنگلہ دیش میں جب حالات خراب ہوئے وہاں ساڑھے تین برس گزارے ان ایام کی تلخی آج بھی ان کے دل و دماغ میں تازہ ہے۔ مارچ آپریشن کے وقت بھی وہ وہیں تھے۔ وہ اس آپریشن کو درست حکمت عملی نہ تب سمجھتے تھے نہ اب۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ اتنے ٹوٹ گئے اور انھوں نے سمجھا کہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بہ نسبت بہتر  یہی ہے کہ خود احتساب کے روایت کی رو سے استعفادے کر کوئی اور کام کریں۔ استعفا دیا جو منظور نہ ہوا۔ 1978ء تک فوج سے وابستہ رہنے کے بعد وہ میجر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے انگریزی کیا۔ امریکہ بھی تعلیم حاصل کرنے گئے لیکن نجی مسائل کی وجہ سے ایک برس بعد ہی وہاں سے لوٹ آئے۔ اس کے بعد سے وہ مستقل طور پر لاہور میں ہی قیام پذیر ہیں۔

محمود گیلانی کے بقول “ہمارے ہاں تنقید کی حالت بہت دگرگوں ہے اور ابھی تک صحیح معنوں میں کوئی نقاد سامنے نہیں آیا۔ یہاں کے نقادوں کے مطالعہ میں اتنی وسعت ہی نہیں کہ وہ کسی تحریر کو صحیح طور پر پرکھ سکیں۔ اچھا نقاد سوال کرتا نہیں سوال اٹھاتا ہے۔ نقاد کو تحریر سے سوال کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ ہمارے ہاں کے نقاد تحریر سے زیادہ مصنف کی ذاتیات کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ مغربی ناقدوں میں ایف آر لیوس، سی ایس لیوس اور ڈی ایچ لارنس کے کام کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔”

عالمی ادب پر گہری نگاہ رکھنے والے اس افسانہ نگار کا کہنا ہے کہ ان کو سب سے زیادہ کشش لاطینی امریکہ کے ادیبوں کی تحریروں میں محسوس ہوتی ہے۔ وہ گارشیا مارکیز کی تحریروں کے دیوانے ہیں۔ ان کے بقول ادھر، جو جبر، استحصال اور گھٹن کی کیفیت تھی، اس کو وہاں کے ادیبوں نے موثر انداز میں پیش کرکے، لافانی ادب تخلیق کیا ہے۔ ان کی دانست میں پاکستان کے موجودہ حالات تخلیقی ادب کے لیے بڑے آئیڈیل ہیں اور ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے ان کے حوالے سے تخلیقی طور پر بہت کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ان کو یقین ہے کہ یہاں جلد کوئی نہ کوئی بڑا لکھنے والا ضرور پیدا ہوگا۔ شمس الرحمان فاروقی کے ناول “کئی چاند تھے سر آسماں” کو وہ بہت سراہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے زبان کے ذریعے تاریخ کا سفر کروایا ہے۔ جیسا ماحول ویسی ہی زبان اور موضوع سے بھرپور طریقے سے انصاف۔ اس ناول سے اردو ادب میں نئی راہیں کھلیں گی۔ مرزا اطہر بیگ کا ناول “غلام باغ” بھی انھیں پسند ہے۔ وہ سمجھتے ہیں، مصنف نے اس ناول میں ایسے تجربات کیے ہیں جو ناول کی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کا ناول “بہاؤ” ان کے خیال میں مستنصر کا سب سے بہترین ناول ہے جس میں انھوں نے صدیوں پرانے ماحول کی عکاسی کی اور اس کے بیان کے لیے ایسی زبان گھڑی، جو اس دور سے مطابقت رکھتی ہے۔ پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے انگریزی زبان میں لکھنے والے مصنفین کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ جس زمانے میں آر کے نرائن اور ملک راج آنند نے انگریزی میں لکھا تو ان کی منشا تھی کہ یہاں کے ماحول کو انگریزوں  کے سامنے یوں پیش کیا جائے کہ ان لوگوں کو یہاں کے حالات کی تفہیم میں مدد ملے۔ دور حاضر کے جو ادیب ہیں، ان کو دولت بھی چاہیے اور شہرت بھی۔ اس لیے انھوں نے اپنی زمین چھوڑ کر وہاں ہجرت کی، جہاں یہ دونوں چیزیں مل سکتی  تھیں۔ ان کا ایک تو اپنا ایجنڈا تھا اس کے بعد ایک ایجنڈا تھا پبلشر کا۔ ان لوگوں نے تجربات تو یہاں کے لکھے ہیں۔ یہ لوگ یہاں رہے تو تھے لیکن وہ یہاں کے ماحول سے کماحقہ آگاہی نہ رکھتے تھے اس لیے انھوں نے بہت سی چیزیں مرچ مرسالہ لگا کر پیش کیں اور یہاں کی چیزوں کو گندا اور برا بنا کر پیش کیا۔ ان حالات سے ہم چونکہ گزرے تھے، اس لیے ہمارے لیے ان میں حیرت کی بات نہ تھی، لیکن باہر کے لوگوں میں ان کے لیے بڑی کشش تھی۔ بھارتیا مکرجی نے آغاز میں اچھے ناول لکھے لیکن اورنگزیب پر اپنے ناول میں وہ متعصب ہو گئی، اردن دھتی نے بہت اچھا ناول لکھا جسے بے حد پذیرائی ملی۔ اس نے ناول میں مقامی زبان کا تڑکا لگایا اور ایک نیا اسلوب متعارف کروایا۔  اس کی صداقت جب باہر والوں کو راس نہ آئی  تو اس کی پذیرائی میں کمی ہو گئی۔ اس کا سچ دنیا برداشت نہ کر سکتی تھی۔ انگریزی میں ناول لکھنے والے یہ ادیب شہرت دولت اور پبلشر کی رائے کو مدنظر رکھ کر لکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے تخلیق کردہ ادب کی وقتی طور پر تو پذیرائی ہو گی لیکن ہمیشگی اسے کبھی نہیں ملے گی۔ محمود گیلانی سمجھتے ہیں کہ ناول ہو یا افسانہ بغیر تحقیق کے نہیں لکھا جا سکتا، چاہے آپ نے خیال کو ہی بیان کرنا ہے لیکن وہ کہیں تو بستا ہے۔ تخلیق ادب کے لیے ضروری نہیں کہ ادیب براہِ راست کسی تجربے کا محتاج ہو، جسمانی طور پر اس کا اس زمانے میں موجود ہونا ضروری نہیں جس کے بارے میں وہ لکھ رہا ہے۔ ان کی رائے میں ادب میں لکھنے والے کو باالتزام اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی اپنی ذات تحریر میں کہیں در نہ آئے، کرداروں کو اپنے موقف کو پروان چڑھانے کے زینہ کے طور پر استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں بہت سے ادیبوں کی تخلیقات میں ان کی شخصیت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہ بات ادب کے لیے زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ ادیب کو فکشن میں کسی صورت پارٹی نہیں بننا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ فکشن میں امکانات ہوتے ہیں اور اس کی دو سطحیں ہوتی ہیں ایک جو اوپری سطح ہوتی ہے جس کی تفہیم میں کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا، زیریں سطح جو ہوتی ہے وہ امکانات کی دنیا ہوتی ہے جس میں ہر پڑھنے والا تخلیق کو اپنے انداز میں لے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ادیب خود کو دہرانے لگے تو سمجھیے کہ خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ اس معاملے میں اسے خود کو تحریر سے الگ کر لینا چاہیے اور فکر و نظر میں تازگی کا انتظار کرنا چاہیے۔ مارکیز پر بھی ایک وقت ایسا آیا لیکن اس نے احساس کرتے ہوئے لکھنا کم کیا اور تخلیق ادب کے بجائے خودنوشت کی طرف چلا گیا۔

محمود گیلانی کی رائے ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کا مزاج ناول کا نہیں، ناول لکھنے کے لیے جس ریاضت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں مفقود ہے۔ افسانہ جلدی سے لکھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں ردعمل بھی جلد سامنے آ جاتا ہے۔ مغرب میں آج بھی ناول مقبول ترین صنف ہے۔ وہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ ہمارے ہاں لکھنے والوں کو چونکہ صلہ نہیں ملتا اس لیے اچھے ناول نہیں لکھے گئے، لکھنے کے عمل میں یہ چیز زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ لکھنے والے میں شدت کس قدر ہے، ناول نگار کے سامنے قاری کا ہونا بھی مسئلہ نہیں ہوتا، اس نے تو بس لکھنا ہی ہوتا ہے۔ ان کی دانست میں اچھا لکھنا اور مشہور ہونا دو الگ الگ چیزیں ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی فہرست پر نگاہ دوڑائیں تو آپ کو بے شمار نام ایسے ملیں گے جو ان لوگوں سے جن کو نوبل انعام مل چکا ہے ان سے کہیں زیادہ انعام کے مستحق تھے لیکن ان کو انعام نہیں ملا۔ ہمارے ہاں رفیق حسین، نیر مسعود اور حسن منظر کو اس طرح شہرت نہیں ملی جس طرح کے ان سے کہیں کم تر لکھنے والوں کے حصے میں آئی۔ یہ بات طے ہے کہ اوریجنل لکھنے والے کو اپنے دور میں مقام و مرتبہ ملے یا نہ ملے لیکن اس کے حروف کو تاریخ کے اوراق میں باریابی ضرور ملنا ہوتی ہے اس میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن ایسا ہوتا ضرور ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں اخبارات میں قسط وار ناول چھپنے سے قاری کو ناول کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔ انتظار حسین اور نیر مسعود ان کے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔

ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمان سے تعلق کو وہ اپنا قابل فخر اثاثہ سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ زندگی میں زیادہ تر جو بہترین کتابیں پڑھیں وہ بھی انھیں کے مرہونِ منت ہیں اور وہ میرے لیے گرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ نامور مترجم شاہد حمید کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ وہ جب بھی بیرون ملک گئے تو نئے فکشن کی بہترین کتابیں ساتھ لاتے جن سے انھوں نے حظ بھی اٹھایا اور استفادہ بھی کیا۔ مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے واقعات کا قریب سے مشاہدہ کرنے والے اس افسانہ نگار کا کہنا ہے کہ وہ اس موضوع پر ناول لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہ اس واقعہ سے اتنے شدید طور پر متاثر ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ابھی تک اس مرتبے تک نہیں لا سکے جہاں وہ اپنی ذات کو چھپا سکے اور ڈرتے ہیں کہ لکھتے ہوئے کوئی ایسی بات نہ کہہ بیٹھیں جو میرے کردار کو اچھی یا بری لگتی ہو۔ وہ کہتے ہیں پاکستان کی تقسیم ہندوستان کی تقسیم سے زیادہ اثر انداز ہونے والی ہے کیونکہ یہاں مسلمان، مسلمان سے جدا ہو رہا تھا۔ نامور ادیب انتظار حسین نے کچھ ہی عرصہ قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ محمود گیلانی ایسے دور میں پیدا ہوئے جب وہ محفل ہی برہم ہو چکی ہے جو ان سے مکالمہ کرتی۔ ان کا کہنا ہے کہ حلقے کے اجلاس میں تواتر سے جانا اس وجہ سے ہے کہ وہ وہاں نوجوانوں کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور انھیں ان سے مکالمہ کرنا اچھا لتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نیا لکھنا والا بھی ان کے نزدیک اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ اچھا اور پرانا لکھنے والا۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی میں ان کا قیمتی اثاثہ ان کے دوست ہیں۔ محمود گیلانی کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاست دانوں سے تبدیلی کی توقع عبث ہے یہ تمام اپنے مفادات کے اسیر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں  کہ اس ملک کی نوجوان نسل کو معاشرے میں اپنا کردار ادا کرکے تبدیلی کا نقیب بننا چاہیے۔ محمود گیلانی کی پی ٹی وی اور درجنوں چینل کے ساتھ بھی وابستگی رہی، وہ نئے چینلز سے وابستہ زیادہ تر لوگوں کے کام سے متاثر نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آئیڈیاز کا فقدان ہے۔ آج کل وہ اپنے لیے افسانوی مجموعے کی ترتیب میں مصروف ہیں۔